Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The Obligation Of Jihad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3090.
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی لڑوں حتیٰ کہ وہ للَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ لیں۔ جس آدمی نے للَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ لیا، اس نے مجھ سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا۔ الا یہ کہ اس کے ذمے کسی کا حق واجب الادا ہو۔ باقی رہا اس کا حقیقی حساب تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔
تشریح:
(1) ”حتیٰ کہ“ یعنی کسی کے کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس سے لڑائی جائز نہیں۔ ہم ظاہر کو دیکھیں گے۔ باقی رہا کہ وہ کس نیت سے کلمہ پڑھ رہا ہے تو یہ حساب اللہ کے ذمے ہے۔ ہمیں اس میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کام اس کے لیے ہی چھو ڑ دیے جائیں۔ دخل اندازی مناسب نہیں۔ (2) ”کسی کا حق“ اسلام کسی سابقہ حق کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ اسلام لانے سے سابقہ حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد کی ادائیگی لازم رہتی ہے۔ (3) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک کوئی شخص مسلمان نہ ہو، اس سے لڑائی جاری رکھی جائے یا اسے قتل کردیا جائے اور اس کا مال لوٹ لیا جائے، کیونکہ یہ مفہوم رسول اللہﷺ کی تیئیس سالہ زندگی نبوت کے طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔ اسلامی مملکت میں ذمیوں کا وجود متفقہ چیز ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں بھی اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی۔ اس کا انکار ممکن نہیں، لہٰذا اس حدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ پھر انہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے او ر وہ کلمہ اسلام پڑھ لیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی لڑوں حتیٰ کہ وہ للَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ لیں۔ جس آدمی نے للَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ پڑھ لیا، اس نے مجھ سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا۔ الا یہ کہ اس کے ذمے کسی کا حق واجب الادا ہو۔ باقی رہا اس کا حقیقی حساب تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”حتیٰ کہ“ یعنی کسی کے کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس سے لڑائی جائز نہیں۔ ہم ظاہر کو دیکھیں گے۔ باقی رہا کہ وہ کس نیت سے کلمہ پڑھ رہا ہے تو یہ حساب اللہ کے ذمے ہے۔ ہمیں اس میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کام اس کے لیے ہی چھو ڑ دیے جائیں۔ دخل اندازی مناسب نہیں۔ (2) ”کسی کا حق“ اسلام کسی سابقہ حق کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ اسلام لانے سے سابقہ حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد کی ادائیگی لازم رہتی ہے۔ (3) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک کوئی شخص مسلمان نہ ہو، اس سے لڑائی جاری رکھی جائے یا اسے قتل کردیا جائے اور اس کا مال لوٹ لیا جائے، کیونکہ یہ مفہوم رسول اللہﷺ کی تیئیس سالہ زندگی نبوت کے طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔ اسلامی مملکت میں ذمیوں کا وجود متفقہ چیز ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں بھی اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی۔ اس کا انکار ممکن نہیں، لہٰذا اس حدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ پھر انہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے او ر وہ کلمہ اسلام پڑھ لیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک کہ لوگ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہنے نہ لگ جائیں۔ تو جس نے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے،۱؎، اور اس کا (آخری) حساب اللہ کے ذمہ ہے۔“۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایسی صورت میں اس کی گردن ماری بھی جا سکتی ہے اور اس کا مال ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔ ۲؎ : کس نے دکھانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور کون سچے دل سے اسلام لایا ہے، یہ اللہ ہی فیصلہ کرے گا، یہاں صرف ظاہر کا اعتبار ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Saeed bin Al-Musayyab narrated that Abu Hurairah (RA) told him that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “I have been commanded to fight the people until they say La ilaha illallah (there is none worthy of worship except Allah). Whoever says La ilaha illalláh, his life and his property are safe from me, except by its right (in cases where Islamic laws apply), and his reckoning will be with Allah.” (Sahih)