تشریح:
(1) ”پیش کرتی تھیں۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح رکھا تھا کہ اگر کوئی مومن مہاجر عورت اپنے آپ کو رسول اللہﷺ پر نکاح کے لیے پیش کرے تو آپ اولیاء کے بغیر اسے نکاح فرما سکتے ہیں۔ کیونکہ اولاً تو مہاجر عورتوں کے لیے اولیاء کافر ہوتے تھے جن کی ولایت ساقط ہوتی تھی، دوسرے نسبی اولیاء نہ ہونے کی صورت میں آپ حاکم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے قانونی ولی ہوتے تھے، لہٰذا عورت کی پیشکش کی صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرلینا تمام شرائط پر پورا اترنا تھا مگر آپ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا جس نے خود پیش کش کی ہو تاکہ کوئی نابکار الزام تراشی نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ آپ کے لیے شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً ہر لحاظ سے جائز تھا۔
(2) ”پیش کرسکتی ہے۔“ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے حالات کے لحاظ سے فرمائی ورنہ ایک مہاجر، بے آسرا نوجوان عورت جو اپنے خاندان سے منقطع ہوچکی ہے، اگر اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی اکرمﷺ پر پیش کرے کہ اگر آپ کی ضرورت ہو تو آپ نکاح فرما لیں ورنہ کسی اور سے کردیں، اس میں ذرہ بھر بھی قباحت نہیں کیونکہ آپ حاکم اعلیٰ تھے اور ایسی بے آسرا نوجوان عورتوں کو سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بنتا تھا۔
(3) ”یہ آیت اتاری۔“ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے لیے اپنی بیویوں کے لیے باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر قربان جائیے آپ کے اخلاق عالیہ پر کہ آپ نے باوجود اتنی وسعت کے نہ صرف باری مقرر کی بلکہ ان سب سے ہر لحاظ سے مساویانہ سلوک فرمایا۔ فِدَاہُ نَفْسِیی وَرُوحِیی وَأَبِیی وَأُمِّییﷺ۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، النكاح‘ حدیث: ۲۱۳۵‘ وإرواء الغلیل: ۷/۷۵)