باب: نکاح اور بیویوں کے بارے میں رسول اللہ کی خصوصی حیثیت وشان اور اس چیز کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے حلال کی ہے اور دوسرے لوگو ں پر ممنوع قراردی ہے تاکہ آپ عظیم الشان مرتبہ اور فضیلت ظاہر ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Mentioning the Command of the Messenger of Allah Concerning Marriage, His Wives and what Allah, The Mighty And Sublime, Permitted To His Prophet When It Is Forbidden To Other People, Because Of His Virtue And High Status)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3200.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ میں صحابہ میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت آکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں فیصلہ کریں۔ (آپ خاموش رہے تو) ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: (اگر آپ کو ضرورت نہیں تو) مجھ سے اس کا نکاح کردیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”جا کوئی چیز تلاش کرکے لا، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو (تاکہ مہر میں دے سکے)۔“ وہ شحص گیا مگر اسے کوئی چیز نہ ملی حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا تجھے قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟“ ا سں نے کہا: ہاں۔ آپ نے قرآن مجید کی ان سورتوں (کی تعلیم) کے عوض اس کا اس عورت سے نکاح فرما دیا۔
تشریح:
(1) یہ عورت بھی شاید بے آسرا تھی اور اولیاء نہ تھے۔ تبھی آپ نے بطور حاکم ولی بن کر اس کا نکاح کردیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس مہر کے لیے کوئی رقم یا کوئی چیز نہ ہو تو تعلیم کے عوض بھی نکاح کیا جاسکتا ہے، نیز اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ تبھی تو آپ نے فرمایا: ”چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ۔“ جن حضرات نے مہر کی حد مقرر سمجھی ہے وہ تاویل کرتے ہیں کہ اصل مہر الگ تھا۔ مگر تعجب ہے کہ اس مہر کا کہیں ذکر ہی نہیں؟ لہٰذا یہ تاویل کمزور مقرر ہے نہ زیادہ سے زیادہ۔ البتہ فریقین کی رضا مندی شرط ہے۔ (2) ہبہ فی النکاح، یعنی عورت کا نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا نبی اکرمﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ کسی اور شخص کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ (3) تاکید کے لیے قسم کھانا جائز ہے اگرچہ مطالبہ نہ ہو۔ (4) نکاح میں حق مہر ضروری ہے۔ (5) مہر مؤجل جائز ہے۔ (6) کفو آزادی اور دین داری میں ہوتا ہے، نسب اور مال میں نہیں۔ (7) آدمی اپنا پیغام نکاح خود دے سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3202
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3200
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3202
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ میں صحابہ میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت آکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں فیصلہ کریں۔ (آپ خاموش رہے تو) ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: (اگر آپ کو ضرورت نہیں تو) مجھ سے اس کا نکاح کردیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”جا کوئی چیز تلاش کرکے لا، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو (تاکہ مہر میں دے سکے)۔“ وہ شحص گیا مگر اسے کوئی چیز نہ ملی حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا تجھے قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟“ ا سں نے کہا: ہاں۔ آپ نے قرآن مجید کی ان سورتوں (کی تعلیم) کے عوض اس کا اس عورت سے نکاح فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ عورت بھی شاید بے آسرا تھی اور اولیاء نہ تھے۔ تبھی آپ نے بطور حاکم ولی بن کر اس کا نکاح کردیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس مہر کے لیے کوئی رقم یا کوئی چیز نہ ہو تو تعلیم کے عوض بھی نکاح کیا جاسکتا ہے، نیز اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ تبھی تو آپ نے فرمایا: ”چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ۔“ جن حضرات نے مہر کی حد مقرر سمجھی ہے وہ تاویل کرتے ہیں کہ اصل مہر الگ تھا۔ مگر تعجب ہے کہ اس مہر کا کہیں ذکر ہی نہیں؟ لہٰذا یہ تاویل کمزور مقرر ہے نہ زیادہ سے زیادہ۔ البتہ فریقین کی رضا مندی شرط ہے۔ (2) ہبہ فی النکاح، یعنی عورت کا نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا نبی اکرمﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ کسی اور شخص کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ (3) تاکید کے لیے قسم کھانا جائز ہے اگرچہ مطالبہ نہ ہو۔ (4) نکاح میں حق مہر ضروری ہے۔ (5) مہر مؤجل جائز ہے۔ (6) کفو آزادی اور دین داری میں ہوتا ہے، نسب اور مال میں نہیں۔ (7) آدمی اپنا پیغام نکاح خود دے سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قوم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کرتی ہوں، میرے متعلق آپ کی جیسی رائے ہو کریں، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا (اللہ کے رسول!) اس عورت سے میرا نکاح کرا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ (بطور مہر) کوئی چیز ڈھونڈھ کر لے آؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو“، تو وہ گیا لیکن کوئی چیز نہ پایا حتیٰ کہ (معمولی چیز) لوہے کی انگوٹھی بھی اسے نہ ملی، آپ ﷺ نے کہا: ”کیا تمہیں قرآن کی سورتوں میں سے کچھ یا د ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اس کا نکاح اس عورت سے قرآن کی ان سورتوں کے عوض کرا دی جو اسے یاد تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sahl bin Sa'd said: "I was among the people when a woman said: 'I offer myself (in marriage) to you, O Messenger of Allah, see what you think of me.' A man stood up and said: 'Marry me to her.' He said: 'Go and find (something), even if it is an iron ring.' So he went, but he could not find anything, not even an iron ring. So the Messenger of Allah said: 'Do you have (memorized) any surahs of the Qur'an?' He said: 'Yes.' So he married him to her on the basis of what he knew of surahs of the Qur'an.