باب: ان چیزوں کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر فرض فرمائیں اور دوسرے لوگوں پر حرام‘ تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید اپنا قرب نصیب فرمائے‘ ان شاء اللہ
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: What Allah Enjoined Upon His Prophet And Forbade to Other People in Order to Bring him Closer to Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3201.
نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ نے خبردی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو (طلاق لینے کا) اختیار دیں تو رسول اللہﷺ (سب سے پہلے) میرے پاس آئے اور فرمایا: ”عائشہ میں تجھ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں۔ تو اس (کا جواب دینے) کے بارے میں جلدی نہ کرنا حتیٰ کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے۔“ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میرے والدین کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: (یہ آیت پڑھی) ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ …﴾ ”اے نبیﷺ! اپنی بیو یوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی نیت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے کر فارغ کرودوں… الخ۔“ میں نے کہا: میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ طلب کروں؟ بلاشک وشبہ میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کی طلب گار ہوں۔
تشریح:
(1) جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں، جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتا دیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے، اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں، جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهنْ وأرضاھن (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا، پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بھی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3203
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3201
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3203
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ نے خبردی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو (طلاق لینے کا) اختیار دیں تو رسول اللہﷺ (سب سے پہلے) میرے پاس آئے اور فرمایا: ”عائشہ میں تجھ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں۔ تو اس (کا جواب دینے) کے بارے میں جلدی نہ کرنا حتیٰ کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے۔“ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میرے والدین کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: (یہ آیت پڑھی) ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ …﴾ ”اے نبیﷺ! اپنی بیو یوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی نیت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے کر فارغ کرودوں… الخ۔“ میں نے کہا: میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ طلب کروں؟ بلاشک وشبہ میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کی طلب گار ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں، جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتا دیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے، اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں، جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهنْ وأرضاھن (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا، پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بھی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ ﷺ نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔“ ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں: حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ میرے والدین آپ ﷺ سے علیحدگی اختیار کر لینے کا مشورہ اور حکم (کبھی بھی) نہ دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: (یعنی یہ آیت پڑھی) «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ» ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی، دنیاوی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں، اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔“ (الأحزاب: ۲۸) میں نے کہا: اس سلسلہ میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ (مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) کیونکہ میں اللہ کو، اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر (جنت) کو چاہتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے)۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: مگر کسی نے آپ سے علیحدگی قبول نہ کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): It was narrated from 'Aishah, the wife of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), that the Messenger of Allah (ﷺ) came to her when Allah commanded him to give his wives the choice. 'Aishah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) started with me and said: 'I am going to tell you something, but you do not have to rush until you consult your parents.'" She said: "He knew that my parents would not tell me to leave him." Then the Messenger of Allah (ﷺ) told what Allah said: 'O Prophet! Say to your wives: If you desire the life of this world, and its glitter, then come! I will make a provision for you and set you free in a handsome manner.' "I said: 'Do I need to consult my parents about this? I choose Allah and His Messenger, and the abode of the Hereafter.