کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: جو آدمی پانی پائے نہ مٹی(تو کیا کرے؟)
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: One Who Cannot Find Water Or Clean Earth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
324.
حضرت طارق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جنبی ہوگیا (اور اسے پانی نہ ملا) تو اس نے نماز نہ پڑھی۔ پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ’’تو نے ٹھیک کیا۔‘‘ ایک اور آدمی جنبی ہوگیا تو اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی۔ وہ آپ کے پاس آیا تو اسے بھی آپ نے وہی کہا جو دوسرے کو کہا تھا، یعنی تو نے ٹھیک کیا۔
تشریح:
(1) ’’نماز نہ پڑھی‘‘ اسے تیمم کا حکم معلوم نہ ہوگا، یا اس کا یہ عمل تیمم کی مشروعیت سے پہلے کا ہے کیونکہ حدیث: ۳۲۱ میں گزرا ہے کہ ایک آدمی جنابت کی حالت میں تھا اور لوگوں سے الگ ہوکر بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحیح شرعی مسئلہ یہی ہے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کر لیا جائے جیسا کہ دوسرے آدمی نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی تھی اور آپ نے اسے درست قرار دیا ہے۔ رہا پہلا آدمی تو اسے بھی یہی چاہیے تھا لیکن چونکہ اسے علم نہ تھا یا ابھی تک تیمم کی مشروعیت نازل نہیں ہوئی تھی تو اسے چاہیے تھا کہ ایسی حالت میں نماز پڑھ لیتا جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوضو اور بلاتیمم نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں برقرار بھی رکھا، لہٰذا ایسی حالت میں نماز نہ پڑھنا اس کا ذاتی اجتہاد تھا جس کی وجہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے أصبت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی فرما دی، مراد یہ ہے کہ تجھے اس اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ یہ قطعاً مراد نہیں کہ تم دونوں ہی حق پر ہو کیونکہ حقیقت میں حق پر وہی ہوگا جو اصل شرعی رخصت یا حکم کے مطابق عمل کرے گا اور یہ حقیقت اس وقت بالکل واضح ہوگی جب صحیح دلیل موجود ہو، لہٰذا دو اختلاف کرنے والے مجتہدوں کو بیک وقت حق پر نہیں کہا جا سکتا، یقیناً ایک خطاکار ہوگا۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بعد ذکر کرنے کا مقصد یہ لگتا ہے کہ یہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا حدیث عائشہ اور اس حدیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں بنتا۔ واللہ أعلم۔ یعنی آدمی کو اسی حالت میں نماز پڑھ لینی چاہیے اگرچہ پانی اور تیمم کے لیے مٹی نہ بھی ملے، لیکن دلائل کی رو سے یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ (3) اس حدیث سے پتا چلا کہ عہد نبوی میں بھی اجتہاد ہوتا رہا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے بعد نصوص کی تلاش بھی جاری رکھی جائے اور جب مجتہد کے لیے حق ثابت ہو جائے اور صحیح دلیل مل جائے تو اسے اپنے سابقہ اجتہاد اور موقف کو ترک کر دینا چاہیے۔
حضرت طارق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جنبی ہوگیا (اور اسے پانی نہ ملا) تو اس نے نماز نہ پڑھی۔ پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ’’تو نے ٹھیک کیا۔‘‘ ایک اور آدمی جنبی ہوگیا تو اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی۔ وہ آپ کے پاس آیا تو اسے بھی آپ نے وہی کہا جو دوسرے کو کہا تھا، یعنی تو نے ٹھیک کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ’’نماز نہ پڑھی‘‘ اسے تیمم کا حکم معلوم نہ ہوگا، یا اس کا یہ عمل تیمم کی مشروعیت سے پہلے کا ہے کیونکہ حدیث: ۳۲۱ میں گزرا ہے کہ ایک آدمی جنابت کی حالت میں تھا اور لوگوں سے الگ ہوکر بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحیح شرعی مسئلہ یہی ہے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کر لیا جائے جیسا کہ دوسرے آدمی نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی تھی اور آپ نے اسے درست قرار دیا ہے۔ رہا پہلا آدمی تو اسے بھی یہی چاہیے تھا لیکن چونکہ اسے علم نہ تھا یا ابھی تک تیمم کی مشروعیت نازل نہیں ہوئی تھی تو اسے چاہیے تھا کہ ایسی حالت میں نماز پڑھ لیتا جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوضو اور بلاتیمم نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں برقرار بھی رکھا، لہٰذا ایسی حالت میں نماز نہ پڑھنا اس کا ذاتی اجتہاد تھا جس کی وجہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے أصبت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی فرما دی، مراد یہ ہے کہ تجھے اس اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ یہ قطعاً مراد نہیں کہ تم دونوں ہی حق پر ہو کیونکہ حقیقت میں حق پر وہی ہوگا جو اصل شرعی رخصت یا حکم کے مطابق عمل کرے گا اور یہ حقیقت اس وقت بالکل واضح ہوگی جب صحیح دلیل موجود ہو، لہٰذا دو اختلاف کرنے والے مجتہدوں کو بیک وقت حق پر نہیں کہا جا سکتا، یقیناً ایک خطاکار ہوگا۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بعد ذکر کرنے کا مقصد یہ لگتا ہے کہ یہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا حدیث عائشہ اور اس حدیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں بنتا۔ واللہ أعلم۔ یعنی آدمی کو اسی حالت میں نماز پڑھ لینی چاہیے اگرچہ پانی اور تیمم کے لیے مٹی نہ بھی ملے، لیکن دلائل کی رو سے یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ (3) اس حدیث سے پتا چلا کہ عہد نبوی میں بھی اجتہاد ہوتا رہا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے بعد نصوص کی تلاش بھی جاری رکھی جائے اور جب مجتہد کے لیے حق ثابت ہو جائے اور صحیح دلیل مل جائے تو اسے اپنے سابقہ اجتہاد اور موقف کو ترک کر دینا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طارق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جنبی ہو گیا، اس نے نماز نہیں پڑھی، تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے ٹھیک کیا، پھر ایک دوسرا آدمی بھی جنبی ہو گیا، تو اس نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، اور آپ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے اس سے بھی ایسا ہی فرمایا جیسا کہ دوسرے سے فرمایا تھا، یعنی تم نے بھی ٹھیک کیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Tariq that a man became Junub and did not pray, then he came to the Prophet (ﷺ) and mentioned that to him. He said: “You did the right thing.” Another man became Junub and performed Tayammum and prayed, and he came to him and he said something similar to what he had told the other man — meaning, you did the right thing. (Sahih)