باب: عورت کا از خود کسی نیک آدمی کو نکاح کی پیش کش کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: A Woman Offering Herself In Marriage To One Whom She Likes)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3249.
حضرت ثابت بنانی سے روایت ہے کہ میں حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس تھا جبکہ ان کی ایک بیٹی تھی ان کے پاس موجود تھی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اس نے آپ کو نکاح کی پیش کش کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھ سے نکاح کی ضرورت ہے؟
تشریح:
(۱) پیچھے گزرچکا ہے کہ اس دور ہجرت میں بعض خواتین کے نسبی اولیاء نہیں تھے (کونکہ وہ کفر پر قائم تھے) اس لیے وہ اپنے اولیاء کے بجائے خود نکاح کی بات کرنے پر مجبور تھیں۔ ایسے حالات میں یہ کوئی قابل اعتراف بات نہیں۔ حاکم اعلیٰ ہونے کی وجہ سے رسول اللہﷺ ان کی ’’ولی‘‘ تھے۔ احتراماً انہوں نے پہلے آپ کو نکاح کی پیش کش کی ورنہ ان کا مقصد صرف نکاح تھا۔ رسول اللہﷺ نے کسی عورت کی ایسی پیش کش کو قبول نہ فرمایا جب تک یہی پیش کش ان کے اولیاء نے نہیں کی۔ ﷺ۔ (۲) اگر مختلف رشتے آئے ہوں اور ان میں کوئی دین داررشتہ ہو تو عورت اپنے اولیاء کو اس کی طرف توجہ دلا سکتی ہے۔ اس میں انشاء اللہ کوئی قلت حیا یا عدم حیا والی بات نہیں‘ یہ عورت کی اپنی رغبت ہے جو اس کے لیے دنیا وآخرت میں نفع کا سبب ہے۔ (۳) ہر معاملے میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3251
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3249
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3251
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ثابت بنانی سے روایت ہے کہ میں حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس تھا جبکہ ان کی ایک بیٹی تھی ان کے پاس موجود تھی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اس نے آپ کو نکاح کی پیش کش کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھ سے نکاح کی ضرورت ہے؟
حدیث حاشیہ:
(۱) پیچھے گزرچکا ہے کہ اس دور ہجرت میں بعض خواتین کے نسبی اولیاء نہیں تھے (کونکہ وہ کفر پر قائم تھے) اس لیے وہ اپنے اولیاء کے بجائے خود نکاح کی بات کرنے پر مجبور تھیں۔ ایسے حالات میں یہ کوئی قابل اعتراف بات نہیں۔ حاکم اعلیٰ ہونے کی وجہ سے رسول اللہﷺ ان کی ’’ولی‘‘ تھے۔ احتراماً انہوں نے پہلے آپ کو نکاح کی پیش کش کی ورنہ ان کا مقصد صرف نکاح تھا۔ رسول اللہﷺ نے کسی عورت کی ایسی پیش کش کو قبول نہ فرمایا جب تک یہی پیش کش ان کے اولیاء نے نہیں کی۔ ﷺ۔ (۲) اگر مختلف رشتے آئے ہوں اور ان میں کوئی دین داررشتہ ہو تو عورت اپنے اولیاء کو اس کی طرف توجہ دلا سکتی ہے۔ اس میں انشاء اللہ کوئی قلت حیا یا عدم حیا والی بات نہیں‘ یہ عورت کی اپنی رغبت ہے جو اس کے لیے دنیا وآخرت میں نفع کا سبب ہے۔ (۳) ہر معاملے میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ثابت بنانی کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک ؓ کے پاس تھا ، وہاں ان کی ایک بیٹی بھی موجود تھی ، انس ؓ نے کہا : ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی ، اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر دیا ، اور کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اگر آپ مجھے نکاح کے لیے قبول فرمائیں تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Thabit Al-Bunani said: "I was with 'Anas bin Malik (RA) and a daughter of his was with him. He said: 'A woman came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and offered herself in marriage to him. She said: O Messenger of Allah, do you want to marry me?