تشریح:
(1) استخارہ سے مراد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہے۔ اور ایسے کام میں ہوتا ہے جس کا اچھا یا برا ہونا یقینی نہ ہو، جس میں تردد ہو، لہٰذا استخارہ کسی فرض، سنت یا حرام کام میں نہیں ہوسکتا کیونکہ فرض وسنت کا خیر ہونا اور حرام کا شروع ہونا پہلے سے واضح ہے۔
(2) استخارہ کا مقصد تردد ختم کرنا ہے، لہٰذا جب تک تردد ختم اور شرح صدر نہ ہو اور کوئی ایک کام راجح معلوم نہ ہو، اس وقت تک استخارہ جاری رکھنا چاہیے۔
(3) عام لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارے کے بعد سونا چاہیے، نیند میں صحیح راستہ نظر آئے گا، مگر ایسا عمل کسی حدیث میں ذکر نہیں اور نہ کسی میں خوا ب کا ذکر ہے۔ اسی طرح چوری تلاش کرنے کے لیے استخارے کرنا قرآن وسنت سے خارج بات ہے۔ اس قسم کے کسی استخارے کو حقیقت سمجھنا بھی بے بنیاد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بہت سے معاملات میں تحقیقات کی ضرورت پڑی مگر آپ نے ایسے استخارے نہیں کیے بلکہ شواہد کی مدد سے تحقیق فرمائی، لہٰذا ایسے استخارے ڈھونگ اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے جائز بدگمانیاں اور باہمی فساد پیدا ہوتا ہے۔
(4) ”دورکعت نفل“ یعنی خالص نفل۔ فرض وسنن کے علاوہ۔
(5) ”اگر تو جانتا ہے“ یعنی اگر تو اس کام کو میرے لیے بہتر جانتا ہے۔ گویا علم کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ خیروشر ہونے کے بارے میں سوال کا ایک اندازہ ہے۔
(6) ”اپنے کام کا بھی ذکر کرے“ یعنی ھٰذا الْأَمَرَ کی جگہ اپنی اس حاجت اور کام کا نام لے جس کے بارے میں استخارہ کررہا ہے۔
(7) آدمی کو تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
(8) اللہ رب العزت بندے کو جو انعام واکرام سے نوازتا ہے، یہ محض اس کا فعل ہے، کسی کا اللہ پر حق نہیں۔ اہل السنۃ کا یہی مذہب ہے۔