Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: A Man Marrying Off His Young Daughter)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3255.
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح فرمایا تو وہ چھ سال کی تھیں اور انہیں اپنے گھر بسایا تو نو سال کی تھیں۔
تشریح:
(1) نابالغ بیٹی کا نکاح کرنے میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ بلوغت کے وقت اس کی بیٹی کو نکاح کے قائم رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ باپ کے علاوہ کوئی اور ولی نابالغ بچی کا نکاح کروائے تو بلوغت کے وقت لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس پر اتفاق ہے۔ حدیث کی رو سے پہلی صورت میں بھی اختیار ہے، یعنی جب باپ نے نکاح کروایا ہو۔ (2) بعض حضرات کو تعجب ہے کہ نو سال کی بچی کے ساتھ شب بسری کس طرح ممکن ہے؟ اور وہ بھی پچپن سالہ آدمی کی؟ حالانکہ ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر لڑکی نو سال کی عمر میں بالغ ہوجائے تو اس کے ساتھ شب بسری میں کون سی قانونی یا اخلاقی رکاوٹ ہے؟ جسمانی طور پر بیس سالہ نوجوان یا پچپن سالہ آدمی کے جماع میں کوئی فرق نہیں۔ بلوغت کے لیے کوئی مخصوص عمر مقرر نہیں اس میں آب وہوا اور خوراک کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس بنا پر مختلف علاقوں میں بلوغت کی عمر مختلف ہے، لہٰذا اس پر تعجب کرنے والے خود قابل تعجب ہیں۔ ایسے لوگوں کی بنا پر صحیح احادیث کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3257
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3255
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3257
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح فرمایا تو وہ چھ سال کی تھیں اور انہیں اپنے گھر بسایا تو نو سال کی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) نابالغ بیٹی کا نکاح کرنے میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ بلوغت کے وقت اس کی بیٹی کو نکاح کے قائم رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ باپ کے علاوہ کوئی اور ولی نابالغ بچی کا نکاح کروائے تو بلوغت کے وقت لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس پر اتفاق ہے۔ حدیث کی رو سے پہلی صورت میں بھی اختیار ہے، یعنی جب باپ نے نکاح کروایا ہو۔ (2) بعض حضرات کو تعجب ہے کہ نو سال کی بچی کے ساتھ شب بسری کس طرح ممکن ہے؟ اور وہ بھی پچپن سالہ آدمی کی؟ حالانکہ ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر لڑکی نو سال کی عمر میں بالغ ہوجائے تو اس کے ساتھ شب بسری میں کون سی قانونی یا اخلاقی رکاوٹ ہے؟ جسمانی طور پر بیس سالہ نوجوان یا پچپن سالہ آدمی کے جماع میں کوئی فرق نہیں۔ بلوغت کے لیے کوئی مخصوص عمر مقرر نہیں اس میں آب وہوا اور خوراک کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس بنا پر مختلف علاقوں میں بلوغت کی عمر مختلف ہے، لہٰذا اس پر تعجب کرنے والے خود قابل تعجب ہیں۔ ایسے لوگوں کی بنا پر صحیح احادیث کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی بچی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی، اور جب نو برس کی ہوئیں تو آپ نے ان سے خلوت کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah that the Messenger of Allah married her when she was six years old, and consummated the marriage with her when she was nine.