باب: کنواری لڑکی کا باپ اس کا نکاح کردے جبکہ وہ ناپسند کرتی ہو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Father Marrying Off A Virgin When She Is Unwilling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3269.
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میری وجہ سے اس کا مرتبہ اونچا کرے۔ جبکہ میں اسے پسند نہں کرتی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نبیﷺ کے تشریف لانے تک بیٹھ۔ اتنے میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے آئے تو اس نے پوری بات رسول اللہﷺ کو بتائی۔ آپ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا اختیار اس لڑکی کے سپرد کردیا۔ وہ لڑکی کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے والد محترم کے کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں۔ میں تو یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی اس (نکاح کے) معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں؟
تشریح:
(1) اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کا باپ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا اور لڑکی راضی نہ ہو تو اسے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگر خاوند رضا مند نہیں تو پھر فسخ نکاح کے لیے عدالت یا پنچایت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ (2) ”اس کا مرتبہ اونچاکرے“ وہ معاشرے میں کم حیثیت ہوگا یا اچھے کردار کا مالک نہ ہوگا۔ یا مالی مرتبہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ وہ فقیر ہوگا جبکہ یہ لڑکی اور اس کا والد امیر ہوں گے۔ (3) ”برقرار رکھتی ہوں“ معلوم ہوتا ہے لڑکی واقعتا عقل وفضل والی تھی۔ اپنا مقصد بھی ثابت کردیا اور با پ کی لاج بھی لی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3271
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3269
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3271
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میری وجہ سے اس کا مرتبہ اونچا کرے۔ جبکہ میں اسے پسند نہں کرتی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نبیﷺ کے تشریف لانے تک بیٹھ۔ اتنے میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے آئے تو اس نے پوری بات رسول اللہﷺ کو بتائی۔ آپ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا اختیار اس لڑکی کے سپرد کردیا۔ وہ لڑکی کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے والد محترم کے کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں۔ میں تو یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی اس (نکاح کے) معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں؟
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کا باپ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا اور لڑکی راضی نہ ہو تو اسے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگر خاوند رضا مند نہیں تو پھر فسخ نکاح کے لیے عدالت یا پنچایت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ (2) ”اس کا مرتبہ اونچاکرے“ وہ معاشرے میں کم حیثیت ہوگا یا اچھے کردار کا مالک نہ ہوگا۔ یا مالی مرتبہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ وہ فقیر ہوگا جبکہ یہ لڑکی اور اس کا والد امیر ہوں گے۔ (3) ”برقرار رکھتی ہوں“ معلوم ہوتا ہے لڑکی واقعتا عقل وفضل والی تھی۔ اپنا مقصد بھی ثابت کردیا اور با پ کی لاج بھی لی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی، اور اس نے کہا: میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے اس کی خست اور کمینگی پر پردہ ڈالنے کے لیے کر دی ہے، حالانکہ میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں، انہوں نے اس سے کہا: بیٹھ جاؤ، نبی اکرم ﷺ کو آ لینے دو (پھر اپنا قضیہ آپ کے سامنے پیش کرو)، چنانچہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لے آئے تو اس نے آپ کو اپنے معاملے سے آگاہ کیا۔ آپ ﷺ نے اس کے باپ کو بلا بھیجا (اور جب وہ آ گیا) تو آپ ﷺ نے فیصلہ اس (لڑکی) کے اختیار میں دے دیا اس (لڑکی) نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد نے جو کچھ کر دیا ہے، میں نے اسے قبول کر لیا (ان کے کئے ہوئے نکاح کو رد نہیں کرتی) لیکن میں نے (اس معاملہ کو آپ کے سامنے پیش کر کے) یہ جاننا چاہا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی کچھ حق و اختیار حاصل ہے (سو میں نے جان لیا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah: "A girl came to her and said: 'My father married me to his brother's son so that he might raise his own status thereby, and I was unwilling.' She said: 'Sit here until the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) comes.' Then the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) came, and I told him (what she had said). He sent word to her father, calling him, and he left the matter up to her. She said: 'O Messenger of Allah, I accept what my father did, but I wanted to know whether women have any say in the matter.