Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: The Words By Which The Marriage Tie Is Completed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3280.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ میں نبیﷺ کے ہاں کچھ لوگوں میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت آکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح کے لیے پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ آپ چپ ہوگئے اور اسے کچھ جواب نہ دیا۔ وہ دوبارہ کھڑی ہوکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ (آپ چپ رہے تو) ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! (اگر آپ کو ضرورت نہیں تو) اس عورت کا نکاح مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس (مہر وغیرہ کے لیے) کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔“ وہ گیا، تلاش کے بعد واپس آگیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی چیز نہیں ملی، لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے قرآن یاد ہے۔“ اس نے کہا: جی ہاں! مجھے فلاں فلاں سورتیں حفظ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے قرآن مجید کی سورتوں (کی تعلیم) کے عوض تیرا س سے نکاح کردیا۔“
تشریح:
معلوم ہوا جو الفاظ ایجاب وقبول پر دلالت کرتے ہوں ان سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا: میرا اس سے نکاح فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تیرا نکاح کردیا۔“ یہ ایجاب وقبول ہے۔ ایجاب خاوند یا بیوی کسی طرف سے ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قبول بھی۔ ایک فریق ایجاب کرے، دوسرا قبول۔ مناسب ہے کہ یہ ایجاب وقبول گوہوں کے سامنے علانیہ کروایا جائے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھیے، حدیث: ۳۲۰۲)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3282
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3280
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3282
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ میں نبیﷺ کے ہاں کچھ لوگوں میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت آکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح کے لیے پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ آپ چپ ہوگئے اور اسے کچھ جواب نہ دیا۔ وہ دوبارہ کھڑی ہوکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کرتی ہوں۔ آپ میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ (آپ چپ رہے تو) ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! (اگر آپ کو ضرورت نہیں تو) اس عورت کا نکاح مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس (مہر وغیرہ کے لیے) کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔“ وہ گیا، تلاش کے بعد واپس آگیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی چیز نہیں ملی، لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے قرآن یاد ہے۔“ اس نے کہا: جی ہاں! مجھے فلاں فلاں سورتیں حفظ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے قرآن مجید کی سورتوں (کی تعلیم) کے عوض تیرا س سے نکاح کردیا۔“
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا جو الفاظ ایجاب وقبول پر دلالت کرتے ہوں ان سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا: میرا اس سے نکاح فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تیرا نکاح کردیا۔“ یہ ایجاب وقبول ہے۔ ایجاب خاوند یا بیوی کسی طرف سے ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قبول بھی۔ ایک فریق ایجاب کرے، دوسرا قبول۔ مناسب ہے کہ یہ ایجاب وقبول گوہوں کے سامنے علانیہ کروایا جائے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھیے، حدیث: ۳۲۰۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! اس (بندی) نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیا، آپ جیسا چاہیں کریں۔ آپ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے اپنے آپ کو آپ کی سپردگی میں دے دیا ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کی جو رائے ہو ویسا کریں۔ (اتنے میں) ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری اس (عورت) سے شادی کرا دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا نہیں“، آپ نے فرمایا: ”جا کچھ ڈھونڈ کر لا اگر لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ“، وہ گیا، اس نے تلاش کیا پھر آ کر کہا: مجھے تو کچھ نہیں ملا، لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں! مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس قرآن کے عوض جو تمہیں یاد ہے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا“ (تم اسے بھی انہیں یاد کرا دو)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sahl bin Sa'd said: "I was among the people with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) when a woman stood up and said: 'O Messenger of Allah, she has offered herself in marriage to you, so see what you think of her.' He remained silent and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) did not give any answer. Then she stood up (again) and said: 'O Messenger of Allah, she has offered herself in marriage to you, so see what you think of her.' A man stood up and said: 'Marry her to me, O Messenger of Allah!' He said: 'Do you have anything?' He said: 'No.' He said: 'Go and look, even if it is just an iron ring.' So he went and looked then he came and said: 'I could not find anything, not even an iron ring.' He said: 'Have you memorized anything of the Qur'an?' He said: 'Yes, Surah such-and-such and Surah such-and-such.' He said: 'I will marry you to her on the basis of what you have memorized of the Qur'an.