باب: کس نکاح کے ساتھ تین طلاقوں والی عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہوسکتی ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: The Type of Marriage After Which A Thrice-Divorced Woman May Return To Her First Husband)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3283.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رفاعہ ؓ کی (سابقہ) بیوی نے رسول اللہﷺ کے پاس آ کر کہا: رفاعہ نے مجھے طلاق دی اور طلاق بتہ (تیسری طلاق) دی۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمان بن زبیر سے نکاح کرلیا مگر اس کے پاس تو کپڑے کے پلو (کنارے، یعنی مرادنہ کمزوری) کا سا معاملہ ہے۔ رسول اللہﷺ (اس کی اس تمثیل پر) مسکرائے اور فرمایا: ”شاید تو دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے؟ تو نہیں جا سکتی حتیٰ کہ وہ تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“
تشریح:
(1) ”رفاعہ کی بیوی“ یعنی جو پہلے رفاعہ کی بیوی تھی، ورنہ اس وقت تو وہ عبدالرحمن بن زبیر کے نکاح میں تھی۔ (2) ”تیسری طلاق“ عربی مںی لفظ بتہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: قطعی طلاق، یعنی جس کے بعد رجوع کا امکان نہ ہو۔ اور وہ عام حالات میں تیسری طلاق ہوسکتی ہے۔ (3) ”پلو“ یہ ان کی مرادنہ قوت کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔ کنایات میں عموماً مبالغہ آرائی ہوتی ہے ورنہ وہ کنایا نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتے۔ صرف اشارہ کنایہ ہے۔ اس کی یہ شکایت درست نہ تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے رد کردیا تھا۔ صحیح بخاری میں یہ صراحت موجود ہے کہ خاوند کو بھی پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی نے نبیﷺ کے پاس شکایت لے کر گئی ہے تو وہ بھی پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ (دوسری بیوی سے) ان کے دو بیٹے تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! واللہ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں تو اسے چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں (یعنی پوری قوت سے بھر پور جماع کرتا ہوں) لیکن یہ مجھے ناپسند کرتی ہے اور رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے… پھر نبی اکرمﷺ نے اس سے پوچھا کہ ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تو اس پر یہ الزام لگا رہی ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم! اس کے بیٹے اپنے باپ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ مشابہت رکھتے ہیں جتنی ایک کوا دوسرے کوے سے رکھتا ہے۔“ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: ۵۸۲۵) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے لیے دوسرے خاوند کا اس کے ساتھ جماع اور اس کے بعد طلاق دینا ضروری تھا۔ (4) ”لطف اندوز ہونا“ تیسری طلاق کے بعد خاوند بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، الا یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، پھر ان میں بھی ناچاقی ہوجائے تو وہ عورت عدت کے بعد خاوند سے نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرچکا ہو۔ اگر جماع نہ ہوا ہو تو طلاق کے باوجود پہلے خاوند کے لیے نکاح نہ ہو گی۔ ”لطف اندوز ہو“ میں اس طرف اشارہ ہے۔ (5) آج کل ”حلالہ“ کے نام پر جو بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور عورتوں کو بھینسوں کی طرح کرائے کے ”سانڈ“ کے پاس لے جایا جاتا ہے، یہ امر سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس میں ملوث تمام اشخاص پر لعنت فرمائی ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3290
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3283
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3231
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3283
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3285
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3283
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3285
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رفاعہ ؓ کی (سابقہ) بیوی نے رسول اللہﷺ کے پاس آ کر کہا: رفاعہ نے مجھے طلاق دی اور طلاق بتہ (تیسری طلاق) دی۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمان بن زبیر سے نکاح کرلیا مگر اس کے پاس تو کپڑے کے پلو (کنارے، یعنی مرادنہ کمزوری) کا سا معاملہ ہے۔ رسول اللہﷺ (اس کی اس تمثیل پر) مسکرائے اور فرمایا: ”شاید تو دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے؟ تو نہیں جا سکتی حتیٰ کہ وہ تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”رفاعہ کی بیوی“ یعنی جو پہلے رفاعہ کی بیوی تھی، ورنہ اس وقت تو وہ عبدالرحمن بن زبیر کے نکاح میں تھی۔ (2) ”تیسری طلاق“ عربی مںی لفظ بتہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: قطعی طلاق، یعنی جس کے بعد رجوع کا امکان نہ ہو۔ اور وہ عام حالات میں تیسری طلاق ہوسکتی ہے۔ (3) ”پلو“ یہ ان کی مرادنہ قوت کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔ کنایات میں عموماً مبالغہ آرائی ہوتی ہے ورنہ وہ کنایا نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتے۔ صرف اشارہ کنایہ ہے۔ اس کی یہ شکایت درست نہ تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے رد کردیا تھا۔ صحیح بخاری میں یہ صراحت موجود ہے کہ خاوند کو بھی پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی نے نبیﷺ کے پاس شکایت لے کر گئی ہے تو وہ بھی پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ (دوسری بیوی سے) ان کے دو بیٹے تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! واللہ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں تو اسے چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں (یعنی پوری قوت سے بھر پور جماع کرتا ہوں) لیکن یہ مجھے ناپسند کرتی ہے اور رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے… پھر نبی اکرمﷺ نے اس سے پوچھا کہ ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تو اس پر یہ الزام لگا رہی ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم! اس کے بیٹے اپنے باپ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ مشابہت رکھتے ہیں جتنی ایک کوا دوسرے کوے سے رکھتا ہے۔“ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: ۵۸۲۵) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے لیے دوسرے خاوند کا اس کے ساتھ جماع اور اس کے بعد طلاق دینا ضروری تھا۔ (4) ”لطف اندوز ہونا“ تیسری طلاق کے بعد خاوند بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، الا یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، پھر ان میں بھی ناچاقی ہوجائے تو وہ عورت عدت کے بعد خاوند سے نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرچکا ہو۔ اگر جماع نہ ہوا ہو تو طلاق کے باوجود پہلے خاوند کے لیے نکاح نہ ہو گی۔ ”لطف اندوز ہو“ میں اس طرف اشارہ ہے۔ (5) آج کل ”حلالہ“ کے نام پر جو بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور عورتوں کو بھینسوں کی طرح کرائے کے ”سانڈ“ کے پاس لے جایا جاتا ہے، یہ امر سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس میں ملوث تمام اشخاص پر لعنت فرمائی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (یعنی بالکل قطع تعلق کر دینے والی آخری طلاق) دے دی ہے، اور میں نے ان کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی جن کے پاس بس کپڑے کی جھالر جیسا ہے، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ واپس جانا چاہتی ہو (تو سن لو) یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمہارا شہد اور تم اس کا شہد نہ چکھ لو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مقصد یہ ہے کہ جب عورت اور مرد ہمبستری کر لیں اور پھر شوہر اس عورت کو طلاق دیدے تو یہ مطلقہ عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس جس نے اس کو تین طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیا تھا، نئے نکاح سے واپس ہو سکتی ہے، یہاں پر ہمبستری کی لذت کو ایک دوسرے کے شہد چکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "The wife of Rifa'ah came to the Messenger of Allah and said: 'Rifa'ah divorced me and made it irrevocable. Then I married 'Abdur-Rahman bin Az-Zubair, and what he has is like the fringe of a garment.' The Messenger of Allah smiled and said: 'Do you want to go back to Rifa'ah? No, not unitl he ('Abdur-Rahman) tastes your sweetness and you taste his sweetness.