Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: The Breast Milk Belongs To The Husband)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3317.
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میرے (رضاعی) چچا افلح نے پردے کے احکام اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے انہیں اجازت نہ دی۔ جب نبیﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دیا کرو۔ وہ تمہارے چچا ہیں۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دو۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں۔ وہ تمہارے چچا ہی ہیں۔“
تشریح:
حدیث: ۳۲۳۲ میں عنقریب گزرا ہے کہ ”تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں“ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے بددعا ہے مگر یہاں مراد بددعا نہیں بلکہ مشفقانہ ڈانٹ اور تفہیم ہے۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ کی بددعا اگر وہ غصے میں نہ ہو تو دعا ہی پر محمول ہوتی ہے۔ عرب میں بلکہ سب اقوام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ بددعا کے ہوتے ہیں مگر مقصود ترحم وغیرہ ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3319
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3317
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3319
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میرے (رضاعی) چچا افلح نے پردے کے احکام اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے انہیں اجازت نہ دی۔ جب نبیﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دیا کرو۔ وہ تمہارے چچا ہیں۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دو۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں۔ وہ تمہارے چچا ہی ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
حدیث: ۳۲۳۲ میں عنقریب گزرا ہے کہ ”تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں“ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے بددعا ہے مگر یہاں مراد بددعا نہیں بلکہ مشفقانہ ڈانٹ اور تفہیم ہے۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ کی بددعا اگر وہ غصے میں نہ ہو تو دعا ہی پر محمول ہوتی ہے۔ عرب میں بلکہ سب اقوام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ بددعا کے ہوتے ہیں مگر مقصود ترحم وغیرہ ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے چچا افلح نے پردہ کی آیت کے اترنے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی، تو میں نے انہیں اجازت نہیں دی، پھر نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا ہے (وہ میرے محرم کیسے ہو گئے)، آپ نے فرمایا: ”تم انہیں (اندر) آنے کی اجازت دو، تمہارے ہاتھ میں مٹی لگے (تمہیں نہیں معلوم؟) وہ تمہارے چچا ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "My paternal uncle Aflah asked permission to enter upon me after the (Verse of) Hijab had been revealed, but I did not let him in. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to me and I asked him (about that) and he said: 'Let him in, for he is your paternal uncle.' I said: 'O Messenger of Allah, the woman breast-fed me, not the man.' He said: 'Let him in, may your hands be rubbed with dust, for he is your uncle.