Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Rights And Status Of The Breast-feeding Mother)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3329.
حضرت حجاج ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کون سی چیز رضاعت کا حق ادا کرسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی (رضاعی والدہ کو دے دو)۔“
تشریح:
(1) حقیقی والدہ کا حق تو ادا ہی نہیں ہوسکتا‘ البتہ جس کا دودھ پیا ہو‘ اسے خدمت لے لیے غلام یا لونڈی دے دیے جائیں تو حق ادا ہوجائے گا۔ جس طرح ا س نے اس کی بچپن میں خدمت کی تھی‘ اسی طرح یہ غلام یا لونڈی اس کی خدمت کریں گے۔ یہ تو صرف خدمت کا معاوضہ ہے۔ باقی رہے شفقت اور محبت جو رضاعی والدہ نے اس کے ساتھ کی تھی‘ ا س کے عوض تا حیات اس کا احترام کرے اور اسے اپنی ایک ماں سمجھے‘ جیسے رسول اللہﷺ نے ام یمنؓ کے بارے میں فرمایا:[أُمُّ أَیْمَنَ أُمِّیی بَعْدَ أُمِّیی](اسد الغابة: رقم: ۷۳۷۱) (2) آدمی کو احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے بلکہ صاحب احسان یاد رکھنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اسے اس کا بدلہ دینا چاہیے اور اگر استطاعت نہ ہو تو اس کے حق میں دعا گو رہنا چاہیے۔ (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم احکام دین سمجھنے پر بہت حریص تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3331
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3329
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3331
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت حجاج ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کون سی چیز رضاعت کا حق ادا کرسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی (رضاعی والدہ کو دے دو)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حقیقی والدہ کا حق تو ادا ہی نہیں ہوسکتا‘ البتہ جس کا دودھ پیا ہو‘ اسے خدمت لے لیے غلام یا لونڈی دے دیے جائیں تو حق ادا ہوجائے گا۔ جس طرح ا س نے اس کی بچپن میں خدمت کی تھی‘ اسی طرح یہ غلام یا لونڈی اس کی خدمت کریں گے۔ یہ تو صرف خدمت کا معاوضہ ہے۔ باقی رہے شفقت اور محبت جو رضاعی والدہ نے اس کے ساتھ کی تھی‘ ا س کے عوض تا حیات اس کا احترام کرے اور اسے اپنی ایک ماں سمجھے‘ جیسے رسول اللہﷺ نے ام یمنؓ کے بارے میں فرمایا:[أُمُّ أَیْمَنَ أُمِّیی بَعْدَ أُمِّیی](اسد الغابة: رقم: ۷۳۷۱) (2) آدمی کو احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے بلکہ صاحب احسان یاد رکھنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اسے اس کا بدلہ دینا چاہیے اور اگر استطاعت نہ ہو تو اس کے حق میں دعا گو رہنا چاہیے۔ (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم احکام دین سمجھنے پر بہت حریص تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حجاج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: رضاعت کے حق کی ادائیگی کی ذمہ داری سے مجھے کیا چیز عہدہ بر آ کر سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”شریف غلام یا شریف لونڈی۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی شریف ولائق غلام یا شریف ولائق لونڈی دے دو تاکہ وہ اس کی خدمت کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Hajjaj bin Hajjaj that his father said: "I said: 'O Messenger of Allah, how can I pay back the dues of the one who breast-fed me?' He said: 'By giving a male or female slave.