Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Marrying Those Whom One's Father Married)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3332.
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ میں اپنے چچا کو ملا تو ان کے پاس ایک جھنڈا تھا۔ میں نے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے مجھے فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی منکوحہ بیوی سے نکاح کرلیا تھا‘ کہ میں اس کی گردن اتاردوں‘ یا اس کا مال چھین لوں۔
تشریح:
(1) ”چچا سابقہ روایت میں ’اموں“ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔ (2) ”جھنڈا“ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔ (3) ”اس کا مال چھین لوں“ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور اس کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ [لايَرِثُ المُسْلِمُ الكافِرَ، وَلا يَرِثُ الكافِرُ المُسْلِمَ ]”مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔“(صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: ۶۷۶۴‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: ۱۶۱۴) (4) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی ہے۔ (5) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ (6) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3334
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3332
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3334
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ میں اپنے چچا کو ملا تو ان کے پاس ایک جھنڈا تھا۔ میں نے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے مجھے فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی منکوحہ بیوی سے نکاح کرلیا تھا‘ کہ میں اس کی گردن اتاردوں‘ یا اس کا مال چھین لوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”چچا سابقہ روایت میں ’اموں“ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔ (2) ”جھنڈا“ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔ (3) ”اس کا مال چھین لوں“ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور اس کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ [لايَرِثُ المُسْلِمُ الكافِرَ، وَلا يَرِثُ الكافِرُ المُسْلِمَ ]”مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔“(صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: ۶۷۶۴‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: ۱۶۱۴) (4) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی ہے۔ (5) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ (6) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا سے ملا، ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے کہا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کر لی ہے۔ مجھے آپ نے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال اپنے قبضہ میں کر لوں۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : معلوم ہوا کہ اگر کسی نے مرتد کو قتل کیا ہے تو اس مرتد کا مال بشکل فئی قاتل کو ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yazid bin Al-Bara' that his father said: "I met my maternal uncle who was carrying a flag (for an expedition) and I said: 'Where are you going?' He said: 'The Messenger of Allah is sending me to a man who has married his father's wife, and he has commanded me to strike his neck (kill him) and seize his wealth.