Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Fairness In Giving Dowries)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3350.
حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح کیا جبکہ وہ حبشہ میں تھیں۔ ان کا نکاح نجاشی سے کیا تھا اور انہوں نے اپنے پاس سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا اور انہیں رخصتی کا سامان (ضرورت) بھی اپنے پاس سے دیا اور انہیں حضرت شرجیل بن حسنہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں (حبشہ میں) کوئی چیز نہیں بھیجی تھی۔ آپ کی دوسری عورتوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: ۲۰۸۶) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”حبشہ میں تھی“ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔ (3) یہ ۶ یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓ سے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔ (4) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف نا جائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز نہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: ۳۳۸۶ کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (5) ”چار سودرہم“ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میں کسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقرر کردہ عام مہر پانچ صد درہم تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال الحاكم، ووافقه
الذهبي، وصححه ابن الجارود) .
إسناده: حدثنا حجاج بن أبي يعقوب الثقفي: ثنا مُعَلَّى بن منصور: ثنا ابن
المبارك: ثنا معمر عن الزهري عن عروة عن أم حبيبة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الحجاج،
فهو على شرط مسلم وحده، وقد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه الحاكم (2/181) من طريق محمد بن شاذان الجوهري: ثنا
معلى بن منصور... به. وقال:
صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!
قلت: وهو من أوهامهما؛ فإن ابن شاذان هذا لم يخرج له الشيخان، بل ولا
أحد من بقية الستة؛ فقد ذكره الحافظ تمييزاً، وهو ثقة.
لكن أخرجه النسائي (2/88) ، وابن الجارود (713) ، والبيهقي (7/232) ،
وأحمد (6/427) من طرق أخرى عن عبد الله بن المبارك... به.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3352
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3350
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3352
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح کیا جبکہ وہ حبشہ میں تھیں۔ ان کا نکاح نجاشی سے کیا تھا اور انہوں نے اپنے پاس سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا اور انہیں رخصتی کا سامان (ضرورت) بھی اپنے پاس سے دیا اور انہیں حضرت شرجیل بن حسنہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں (حبشہ میں) کوئی چیز نہیں بھیجی تھی۔ آپ کی دوسری عورتوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: ۲۰۸۶) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”حبشہ میں تھی“ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔ (3) یہ ۶ یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓ سے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔ (4) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف نا جائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز نہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: ۳۳۸۶ کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (5) ”چار سودرہم“ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میں کسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقرر کردہ عام مہر پانچ صد درہم تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ ؓ کے ساتھ (رسول اللہ ﷺ کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ ﷺ کی (دوسری) بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Umm Habibah that the Messenger of Allah married her when she was in Ethiopia. An-NajaShi performed the marriage for her and gave her a dowry of four thousand, and he fitted her out from his own wealth, and sent her with Shurahbil bin Hasanah. The Messenger of Allah did not send her anything, and the dowry of his wives was four hundred Dirhams.