تشریح:
(1) متعہ اس نکاح کو کہتے ہیں جو کچھ مدت کے لیے کیا گیا ہو‘ خواہ وہ گھنٹے ہوں یا دن یا سال۔ اور یہ نکاح‘ مدت ختم ہونے سے خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے‘ طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوران مدت میں خاوند فوت ہوجائے تو عورت کو وراثت نہیں ملتی اور نہ اس پر عدت لازم ہوتی ہے۔ گویا نکاح والا کوئی حکم بھی لاگو نہیں ہوتا سوائے جماع کے‘ لہٰذا یہ شرعی نکاح نہیں۔ البتہ جاہلیت کے ناجائز نکاحوں میں سے یہ ایک تھا۔ ابتدائے اسلام میں اس سے تعرض نہیں کیا گیا مگر بعد میں (فتح مکہ کے موقع پر) اسے ہمیشہ کے لیے حرام کردیا گیا اور اب یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ ایسا نکاح باطل ہوگا اور اگر اسے جاری رکھا جائے تو زنا کے مترادف ہوگا۔ شیعہ حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر ان کے ”اولین امام“ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو جائز کہنے والوں کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے کہتے ہیں۔
(2) ”ایک آدمی“ اس سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ متعہ کو ضرورت اور مجبوری کے وقت جائز سمجھتے تھے کہ جب کہ دیگر صحابہ اسے مطلقاً اور ابدی حرام سمجھتے تھے۔ اور یہی صحیح بات ہے۔
(3) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعہ کے جواز سے حرمت کی طرف رجوع کے متعلق قیل وقال تو موجود ہے لیکن حقیقتاً رجوع ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۶/۳۱۶۔۳۱۹)
(4) ”گھریلو گدھے“ جنگلی گدھا حلال ہے جو کہ دراصل گائے ہوتی ہے۔ صرف پاؤں گدھے کی طرح ہونے کی وجہ سے اسے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے‘ وگرنہ حقیقتاً وہ جنگلی گائے ہے اور حلال ہے۔
(5) بڑے بڑے اجل صحابہ پر بعض اہم مسائل مخفی رہ گئے‘ جیسے یہ مسئلہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر مخفی رہا۔ اس سے مقلدین حضرات کو سبق سیکھنا چاہیے کہ اجل صحابہ پر جب بعض اہم امور مخفی رہے تو ائمہ کرام کے ساتھ یہ معاملہ کیسے پیش نہیں آسکتا‘ لہٰذا تقلید ائمہ کی بجائے قرآن وحدیث کو اوڑھنا بچھونا بنانا چاہیے۔ اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ امام صاحب کا یہ فتویٰ قرآن کی آیت یا حدیث کے خلاف ہے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے اور اس آیت یا حدیث پر عمل کرنا چاہیے اور امام صاحب کو معذور سمجھنا چاہیے کہ شاید انہیں اس مسئلے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔ نہ یہ کہ ان کے قول پر جمے رہیں اور یہ کہتے پھریں کہ امام صاحب کے پاس اس کی کوئی دلیل ہوگی‘ تبھی انہوں نے یہ فتویٰ دیا۔