Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: The Prohibition of Mut'ah (Temporary Marriage))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3365.
محمد ابن حنیفہ ؓ سے راویت ہے کہ حضرت علی ؓ کو یہ بات پہنچی کہ ایک آدمی متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ آپ اسے فرمانے لگے: تو تو راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خیبر (کی جنگ) کے دن متعہ اور گھریوں گدھوں کے گوشت سے روک دیا تھا۔
تشریح:
(1) متعہ اس نکاح کو کہتے ہیں جو کچھ مدت کے لیے کیا گیا ہو‘ خواہ وہ گھنٹے ہوں یا دن یا سال۔ اور یہ نکاح‘ مدت ختم ہونے سے خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے‘ طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوران مدت میں خاوند فوت ہوجائے تو عورت کو وراثت نہیں ملتی اور نہ اس پر عدت لازم ہوتی ہے۔ گویا نکاح والا کوئی حکم بھی لاگو نہیں ہوتا سوائے جماع کے‘ لہٰذا یہ شرعی نکاح نہیں۔ البتہ جاہلیت کے ناجائز نکاحوں میں سے یہ ایک تھا۔ ابتدائے اسلام میں اس سے تعرض نہیں کیا گیا مگر بعد میں (فتح مکہ کے موقع پر) اسے ہمیشہ کے لیے حرام کردیا گیا اور اب یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ ایسا نکاح باطل ہوگا اور اگر اسے جاری رکھا جائے تو زنا کے مترادف ہوگا۔ شیعہ حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر ان کے ”اولین امام“ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو جائز کہنے والوں کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے کہتے ہیں۔ (2) ”ایک آدمی“ اس سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ متعہ کو ضرورت اور مجبوری کے وقت جائز سمجھتے تھے کہ جب کہ دیگر صحابہ اسے مطلقاً اور ابدی حرام سمجھتے تھے۔ اور یہی صحیح بات ہے۔ (3) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعہ کے جواز سے حرمت کی طرف رجوع کے متعلق قیل وقال تو موجود ہے لیکن حقیقتاً رجوع ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۶/۳۱۶۔۳۱۹) (4) ”گھریلو گدھے“ جنگلی گدھا حلال ہے جو کہ دراصل گائے ہوتی ہے۔ صرف پاؤں گدھے کی طرح ہونے کی وجہ سے اسے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے‘ وگرنہ حقیقتاً وہ جنگلی گائے ہے اور حلال ہے۔ (5) بڑے بڑے اجل صحابہ پر بعض اہم مسائل مخفی رہ گئے‘ جیسے یہ مسئلہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر مخفی رہا۔ اس سے مقلدین حضرات کو سبق سیکھنا چاہیے کہ اجل صحابہ پر جب بعض اہم امور مخفی رہے تو ائمہ کرام کے ساتھ یہ معاملہ کیسے پیش نہیں آسکتا‘ لہٰذا تقلید ائمہ کی بجائے قرآن وحدیث کو اوڑھنا بچھونا بنانا چاہیے۔ اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ امام صاحب کا یہ فتویٰ قرآن کی آیت یا حدیث کے خلاف ہے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے اور اس آیت یا حدیث پر عمل کرنا چاہیے اور امام صاحب کو معذور سمجھنا چاہیے کہ شاید انہیں اس مسئلے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔ نہ یہ کہ ان کے قول پر جمے رہیں اور یہ کہتے پھریں کہ امام صاحب کے پاس اس کی کوئی دلیل ہوگی‘ تبھی انہوں نے یہ فتویٰ دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3367
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3365
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3367
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
محمد ابن حنیفہ ؓ سے راویت ہے کہ حضرت علی ؓ کو یہ بات پہنچی کہ ایک آدمی متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ آپ اسے فرمانے لگے: تو تو راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خیبر (کی جنگ) کے دن متعہ اور گھریوں گدھوں کے گوشت سے روک دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) متعہ اس نکاح کو کہتے ہیں جو کچھ مدت کے لیے کیا گیا ہو‘ خواہ وہ گھنٹے ہوں یا دن یا سال۔ اور یہ نکاح‘ مدت ختم ہونے سے خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے‘ طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوران مدت میں خاوند فوت ہوجائے تو عورت کو وراثت نہیں ملتی اور نہ اس پر عدت لازم ہوتی ہے۔ گویا نکاح والا کوئی حکم بھی لاگو نہیں ہوتا سوائے جماع کے‘ لہٰذا یہ شرعی نکاح نہیں۔ البتہ جاہلیت کے ناجائز نکاحوں میں سے یہ ایک تھا۔ ابتدائے اسلام میں اس سے تعرض نہیں کیا گیا مگر بعد میں (فتح مکہ کے موقع پر) اسے ہمیشہ کے لیے حرام کردیا گیا اور اب یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ ایسا نکاح باطل ہوگا اور اگر اسے جاری رکھا جائے تو زنا کے مترادف ہوگا۔ شیعہ حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر ان کے ”اولین امام“ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو جائز کہنے والوں کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے کہتے ہیں۔ (2) ”ایک آدمی“ اس سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ متعہ کو ضرورت اور مجبوری کے وقت جائز سمجھتے تھے کہ جب کہ دیگر صحابہ اسے مطلقاً اور ابدی حرام سمجھتے تھے۔ اور یہی صحیح بات ہے۔ (3) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعہ کے جواز سے حرمت کی طرف رجوع کے متعلق قیل وقال تو موجود ہے لیکن حقیقتاً رجوع ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۶/۳۱۶۔۳۱۹) (4) ”گھریلو گدھے“ جنگلی گدھا حلال ہے جو کہ دراصل گائے ہوتی ہے۔ صرف پاؤں گدھے کی طرح ہونے کی وجہ سے اسے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے‘ وگرنہ حقیقتاً وہ جنگلی گائے ہے اور حلال ہے۔ (5) بڑے بڑے اجل صحابہ پر بعض اہم مسائل مخفی رہ گئے‘ جیسے یہ مسئلہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر مخفی رہا۔ اس سے مقلدین حضرات کو سبق سیکھنا چاہیے کہ اجل صحابہ پر جب بعض اہم امور مخفی رہے تو ائمہ کرام کے ساتھ یہ معاملہ کیسے پیش نہیں آسکتا‘ لہٰذا تقلید ائمہ کی بجائے قرآن وحدیث کو اوڑھنا بچھونا بنانا چاہیے۔ اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ امام صاحب کا یہ فتویٰ قرآن کی آیت یا حدیث کے خلاف ہے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے اور اس آیت یا حدیث پر عمل کرنا چاہیے اور امام صاحب کو معذور سمجھنا چاہیے کہ شاید انہیں اس مسئلے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔ نہ یہ کہ ان کے قول پر جمے رہیں اور یہ کہتے پھریں کہ امام صاحب کے پاس اس کی کوئی دلیل ہوگی‘ تبھی انہوں نے یہ فتویٰ دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کو اطلاع ملی کہ ایک شخص ۱؎ ہے جو متعہ میں کچھ حرج اور قباحت نہیں سمجھتا۔ علی ؓ نے (اس سے) کہا تم گمراہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فر دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایک شخص سے مراد ابن عباس رضی الله عنہما ہیں، ممکن ہے متعہ سے متعلق ممانعت کی انہوں نے کوئی تأویل کی ہو یا اس ممانعت سے وہ باخبر نہ رہے ہوں کیونکہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب مغنی (۷؍۵۷۲) میں لکھا ہے: بیان کیا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ (واللہ أعلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Hasan and 'Abdullah, the sons of Muhammad, from their father, that 'Ali heard that a man did not see anything wrong with Mut'ah (temporary marriage). He said: "You are confused, the Messenger of Allah forbade it, and the meat of domestic donkeys on the day of Khaibar.