Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: A Gift Given Before Consummation Of The Marriage)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3375.
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ ؓ سے نکاح کیا تو (کچھ دنوں کے بعد) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ کی میرے گھر رخصتی فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ دو“ میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تیری حطمی زرہ کدھر گئی؟“ میں نے کہا: وہ تو میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہی اسے دے دو۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ زرہ کو مہر سے الگ سمجھ رہے ہیں اور اسے رخصتی اور خلوت (علیحدگی) کا خصوصی تحفہ قرار دیتے ہیں جب کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ مہر ہی ہے جو نکاح کی بجائے رخصتی کے موقع پر دیا گیا۔ واللہ أعلم۔ (2) ”حطمی زرہ“ بعض نے اہل علم نے کہا کہ حُطَمِیَّہ‘ زرہ کی صفت ہے‘ یعنی توڑ دینے والی اور اس سے مراد ہے تلواروں‘ نیزوں اور تیروں کو توڑ دینے والی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلی اور بھاری زرہ کو حُطَمِیَّہ‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حُطَمِیَّہ‘ قبیلئہ عبدالقیس کی ایک شاخ حطم بن محارب کی طرف منسوب ہے جس کے باشندے یہ زرہیں بناتے تھے۔ اور یہی قول زیادہ معتبر ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (النھایة فی غریب الحدیث: ۱/۴۰۲)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن حبان (6906) ) .
إسناده: حدثنا إسحاق بن إسماعيل الطَالْقَانِيّ: ثنا عبدة: ثنا سعيد عن
أيوب عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير الطالقاني، وهو
ثقة؛ وقد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه النسائي (2/92) : أخبرنا هارون بن إسحاق عن عبدة... به.
وعبدة: هو ابن سليمان الكِلابي أبو محمد الكوفي.
ثم أخرجه هو، والبيهقي (7/252) عن هشام بن عبد الملك قال: حدثنا
حماد عن أيوب... به أتم منه.
وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير حماد- وهو ابن سلمة-،
وفيه كلام في روايته عن غير ثابت.
وأخرجه ابن حبان (6906) من طريق عبده.
ومن طريق أخرى عن عكرمة... نحوه.
ورجاله ثقات.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3377
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3375
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3377
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ ؓ سے نکاح کیا تو (کچھ دنوں کے بعد) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ کی میرے گھر رخصتی فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ دو“ میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تیری حطمی زرہ کدھر گئی؟“ میں نے کہا: وہ تو میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہی اسے دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ زرہ کو مہر سے الگ سمجھ رہے ہیں اور اسے رخصتی اور خلوت (علیحدگی) کا خصوصی تحفہ قرار دیتے ہیں جب کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ مہر ہی ہے جو نکاح کی بجائے رخصتی کے موقع پر دیا گیا۔ واللہ أعلم۔ (2) ”حطمی زرہ“ بعض نے اہل علم نے کہا کہ حُطَمِیَّہ‘ زرہ کی صفت ہے‘ یعنی توڑ دینے والی اور اس سے مراد ہے تلواروں‘ نیزوں اور تیروں کو توڑ دینے والی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلی اور بھاری زرہ کو حُطَمِیَّہ‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حُطَمِیَّہ‘ قبیلئہ عبدالقیس کی ایک شاخ حطم بن محارب کی طرف منسوب ہے جس کے باشندے یہ زرہیں بناتے تھے۔ اور یہی قول زیادہ معتبر ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (النھایة فی غریب الحدیث: ۱/۴۰۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ علی ؓ نے کہا: میں نے فاطمہ ؓ سے شادی کی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: مجھے ملنے کا موقع عنایت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ (تحفہ) دو“، میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، آپ نے فرمایا: ”تیری حطمی زرہ کہاں ہے؟“ میں نے کہا: یہ تو میرے پاس ہے، آپ نے فرمایا: ”وہی اسے دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that 'Ali said: "I got married to Fatimah (RA) and I said: 'O Messenger of Allah, let me consummate the marriage.' He said: 'Give her something.' I said: 'I do not have anything.' He said: 'Where is your Hutamyyah armor?' I said: 'It is with me.' He said: 'Give it to her.