Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Giving A Gift To The One Who Has Got Married)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3388.
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ہجرت کے موقع پر) قریش (مہاجرین) اور انصار کے درمیان بھائی چارہ فرمایا۔ آپ نے حضرت سعد بن ربیع (انصاری) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (مہاجر) ؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنایا۔ چنانچہ حضرت سعد نے ان سے کہا: میرے پاس جو بھی مال ہے وہ میرے اور تیرے درمیان مشترک ہے۔ میری دوبیویاں ہیں‘ دیکھ جو تجھے اچھی لگے‘ میں اسے طلاق دی دیتا ہوں۔ جب عدت ختم ہوتو اس سے نکاح کرلینا۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا: اللہ تعالیٰ تیرے گھر بار میں برکت فرمائے۔ (میں کچھ نہیں لوں گا) مجھے بتاؤ‘ تجارتی بازار کدھر ہے؟ جب واپس آئے تو (کاروبار کے ذریعے سے) کچھ گھی اور پنیر بچا لائے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا: (چند دن بعد) رسول اللہﷺ نے مجھ پر صفرہ خوشبو کے نشان دیکھے تو فرمایا: یہ کیسے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ولیمہ کرنا چاہے ایک بکری ہی کا ہو۔“
تشریح:
(1) مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا وسیع سلسلہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور بے مثال کارنامہ ہے۔ کوئی اور دین‘ نظریہ یا تحریک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس نے غیر رشتہ دار لوگوں کو ماں جائے بھائیوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا‘ خصوصاً اس دور میں جب لوگ بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ کیا ہے کوئی شخص جو اپنے بھائی کو وہ پیش کش کرسکے جو حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کی؟ رَضِيَ اللّٰہ عَنْهمُ وَأَرْضَاهمُ۔ (2) ”انصاری عورت“ انہیں ام اوس بنت انس کہا جاتا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3390
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3388
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3390
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ہجرت کے موقع پر) قریش (مہاجرین) اور انصار کے درمیان بھائی چارہ فرمایا۔ آپ نے حضرت سعد بن ربیع (انصاری) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (مہاجر) ؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنایا۔ چنانچہ حضرت سعد نے ان سے کہا: میرے پاس جو بھی مال ہے وہ میرے اور تیرے درمیان مشترک ہے۔ میری دوبیویاں ہیں‘ دیکھ جو تجھے اچھی لگے‘ میں اسے طلاق دی دیتا ہوں۔ جب عدت ختم ہوتو اس سے نکاح کرلینا۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا: اللہ تعالیٰ تیرے گھر بار میں برکت فرمائے۔ (میں کچھ نہیں لوں گا) مجھے بتاؤ‘ تجارتی بازار کدھر ہے؟ جب واپس آئے تو (کاروبار کے ذریعے سے) کچھ گھی اور پنیر بچا لائے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا: (چند دن بعد) رسول اللہﷺ نے مجھ پر صفرہ خوشبو کے نشان دیکھے تو فرمایا: یہ کیسے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ولیمہ کرنا چاہے ایک بکری ہی کا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا وسیع سلسلہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور بے مثال کارنامہ ہے۔ کوئی اور دین‘ نظریہ یا تحریک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس نے غیر رشتہ دار لوگوں کو ماں جائے بھائیوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا‘ خصوصاً اس دور میں جب لوگ بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ کیا ہے کوئی شخص جو اپنے بھائی کو وہ پیش کش کرسکے جو حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کی؟ رَضِيَ اللّٰہ عَنْهمُ وَأَرْضَاهمُ۔ (2) ”انصاری عورت“ انہیں ام اوس بنت انس کہا جاتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا، تو سعد بن ربیع اور عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ سعد (انصاری) ؓ نے ان سے کہا: میرے پاس مال ہے اس کا آدھا تمہارا ہے اور آدھا میرا اور میری دو بیویاں ہیں تو دیکھو ان میں سے جو تمہیں زیادہ اچھی لگے اسے میں طلاق دے دیتا ہوں، جب وہ عدت گزار کر پاک و صاف ہو جائے تو تم اس سے شادی کر لو۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے جواب دیا: اللہ تمہاری بیویوں اور تمہارے مال میں تمہیں برکت عطا کرے۔ مجھے تو تم بازار کی راہ دکھا دو، (پھر وہ بازار گئے) اور گھی اور پنیر نفع میں گھر لائے بغیر نہ لوٹے ۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر زردی کا نشان دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے ایک انصاری لڑکی سے شادی کی ہے تو آپ نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا سہی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Humaid At-Tawil that he heard Anas (RA) say: "The Messenger of Allah (ﷺ) established the bond of brotherhood between (some of) the Quraish and (some of) the Ansar, and he established the bond of brotherhood between Sa'd bin Ar-Rabi' and 'Abdur-Rahman bin 'Awf. Sa'd said to him: 'I have wealth, which I will share equally between you and me. And I have two wives, so look and see which one you like better, and I will divorce her, and when her 'Iddah is over you can marry her.' He said: 'May Allah bless your family and your wealth for you. Show me i.e., where the market is.' And he did not come back until he brought some ghee, and cottage cheese that he had left over. He said: 'The Messenger of Allah (ﷺ) saw traces of yellow perfume on me and he said: 'What is this for?' I said: 'I have married a woman from among the Ansar.' He said: 'Give a Walimah (wedding feast) even if it is with one sheep.