باب: اس عدت میں طلاق دینے کا وقت جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے لیے مقرر فرمائی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Divorce At The Time When Allah Has Stated That Women May Be Divorced)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3391.
حضرت زہری سے پوچھا گیا کہ صحیح وقت پر طلاق کا کیا طریقہ ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے حضرت سالم نے (اپنے والد محترم) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہﷺ اس پر غصے ہوئے اور فرمایا: ”وہ اس سے رجوع کرے‘ پھر اسے اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ اسے ایک اور حیض آئے‘ پھر وہ پاک ہو۔ اب اگر اس کا خیال بنے تو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے اسے طلاق دے دے۔ یہ صحیح وقت پر طلاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا‘ اور جو طلاق میں نے اسے (حیض کی حالت میں) دی تھی‘ وہ طلاق ہی سمجھی۔
تشریح:
جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق اگرچہ گناہ اور ممنوع ہے اور اس سے رجوع ضروری ہے مگر ایسی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا جائے گا۔ مزید دوطلاقیں رہ جاتی ہیں۔ البتہ بعض محققین نے ایسی طلاق کو کالعدم قراردیا ہے کیونکہ اس سے رجوع ضروری ہے‘ نیز رسول اللہﷺ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کی بجائے دو طلاقوں کا مشورہ نہ دے سکتے تھے۔ عقلاً اگرچہ یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے مگر متعلقہ احادیث کے الفاظ اور صحابہ وتابعین کے اقوال‘ نیز محدثین وفقہاء کے مذاہب اس کے خلاف ہیں۔ شاذ لوگ ہی اس طرف گئے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عقلی مسلک کے قائل ہیں۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3425
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3391
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3338
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3391
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3393
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3391
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3420
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت زہری سے پوچھا گیا کہ صحیح وقت پر طلاق کا کیا طریقہ ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے حضرت سالم نے (اپنے والد محترم) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہﷺ اس پر غصے ہوئے اور فرمایا: ”وہ اس سے رجوع کرے‘ پھر اسے اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ اسے ایک اور حیض آئے‘ پھر وہ پاک ہو۔ اب اگر اس کا خیال بنے تو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے اسے طلاق دے دے۔ یہ صحیح وقت پر طلاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا‘ اور جو طلاق میں نے اسے (حیض کی حالت میں) دی تھی‘ وہ طلاق ہی سمجھی۔
حدیث حاشیہ:
جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق اگرچہ گناہ اور ممنوع ہے اور اس سے رجوع ضروری ہے مگر ایسی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا جائے گا۔ مزید دوطلاقیں رہ جاتی ہیں۔ البتہ بعض محققین نے ایسی طلاق کو کالعدم قراردیا ہے کیونکہ اس سے رجوع ضروری ہے‘ نیز رسول اللہﷺ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کی بجائے دو طلاقوں کا مشورہ نہ دے سکتے تھے۔ عقلاً اگرچہ یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے مگر متعلقہ احادیث کے الفاظ اور صحابہ وتابعین کے اقوال‘ نیز محدثین وفقہاء کے مذاہب اس کے خلاف ہیں۔ شاذ لوگ ہی اس طرف گئے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عقلی مسلک کے قائل ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زبیدی کہتے ہیں: امام زہری سے پوچھا گیا: عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے؟ ( اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت : «فطلقوهن لعدتهن» (الطلاق: 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا: سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ یہ سن کر غصہ ہوئے اور فرمایا: ”اسے رجوع کر لینا چاہیئے، پھر اسے روکے رکھے رہنا چاہیئے یہاں تک کہ (پھر) اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اگر اسے طلاق دے دینا ہی مناسب سمجھے تو طہارت کے ایام میں طلاق دیدے ہاتھ لگانے سے پہلے۔“ عدت والی طلاق کا یہی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اسے لوٹا لیا اور جو طلاق میں اسے دے چکا تھا اسے بھی شمار کر لیا (کیونکہ ان کے خیال میں وہ طلاق اگرچہ سنت کے خلاف اور حرام تھی پروہ پڑ گئی تھی)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salim bin 'Abdullah bin 'Umar narrated that 'Abdullah bin 'Umar said: "I divorced my wife during the lifetime of the Messenger of Allah while she was menstruating. 'Umar (RA) mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ), and the Messenger of Allah got angry about that and said: 'Let him take her back, then keep her until she has menstruated again and become pure again. Then if he wants to divorce her when she is pure and before he touches her (has intercourse with her), then that is divorce at the prescribed time as Allah, the Mighty and Sublime, has revealed.'" 'Abdullah bin 'Umar said: "So I took her back, but I still counted the divorce that I had issued to her.