Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The Sunnah Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3394.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دی جائے‘ پھر جب وہ حیض کے بعد پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے دے‘ پھر جب اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو اسے تیسری طلاق دے دے‘ پھر اس کے بعد وہ عورت ایک حیض عدت گزارے گی۔ (راوئ حدیث) حضرت اعمش نے کہا: میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔
تشریح:
احناف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے مذکورہ طریقے سے تین طلاقیں دینے ہی کوطلاق سنت سمجھتے ہیں‘ حالانکہ یہ عجیب طلاق سنت ہے جس نے یک لخت ایک عورت کو حرام کرکے چھوڑا‘ نیز طلاق تو ایک بھی ممدوح نہیں چہ جائیکہ بلا ضرورت پے درپے تین طلاقیں دے دی جائیں‘ پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک طلاق سے عورت خاوند سے جدا ہوسکتی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ تین سے پہلے بس نہ کی جائے‘ لہٰذا یہ طلاق سنت نہیں ہوسکتی۔ طلاق سنت یہ ہے کہ بیوی کو طہر کی حالت میں‘ بغیر جماع کیے‘ ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ ممکن ہو تو عدت کے دوران میں رجوع کرلیا جائے ورنہ رہنے دیا جائے تاکہ اگر بعد میں اتفاق ہوجائے تو نیا نکاح ہوسکے۔ یہ قول بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو دلائل کے ساتھ طلاق السنہ ثابت کیا ہے‘ لہٰذا اسی قول کو اخذ کرنا چاہیے تاکہ دوران عدت رجوع اور بعد از عدت نکاح جدید کا راستہ باقی رہے۔ جمہور کا مسلک بھی یہی ہے اور یہی درست ہے۔ ہاں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلے قول میں مذکور صورت کو طلاق سنت کہنے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے اگرچہ یہ بہتر نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو طلاق پر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بے فائدہ ہے مگر جمہور اہل علم اس کے وقوع کے قائل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3428
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3394
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3341
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3394
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3396
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3394
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3423
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دی جائے‘ پھر جب وہ حیض کے بعد پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے دے‘ پھر جب اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو اسے تیسری طلاق دے دے‘ پھر اس کے بعد وہ عورت ایک حیض عدت گزارے گی۔ (راوئ حدیث) حضرت اعمش نے کہا: میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔
حدیث حاشیہ:
احناف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے مذکورہ طریقے سے تین طلاقیں دینے ہی کوطلاق سنت سمجھتے ہیں‘ حالانکہ یہ عجیب طلاق سنت ہے جس نے یک لخت ایک عورت کو حرام کرکے چھوڑا‘ نیز طلاق تو ایک بھی ممدوح نہیں چہ جائیکہ بلا ضرورت پے درپے تین طلاقیں دے دی جائیں‘ پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک طلاق سے عورت خاوند سے جدا ہوسکتی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ تین سے پہلے بس نہ کی جائے‘ لہٰذا یہ طلاق سنت نہیں ہوسکتی۔ طلاق سنت یہ ہے کہ بیوی کو طہر کی حالت میں‘ بغیر جماع کیے‘ ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ ممکن ہو تو عدت کے دوران میں رجوع کرلیا جائے ورنہ رہنے دیا جائے تاکہ اگر بعد میں اتفاق ہوجائے تو نیا نکاح ہوسکے۔ یہ قول بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو دلائل کے ساتھ طلاق السنہ ثابت کیا ہے‘ لہٰذا اسی قول کو اخذ کرنا چاہیے تاکہ دوران عدت رجوع اور بعد از عدت نکاح جدید کا راستہ باقی رہے۔ جمہور کا مسلک بھی یہی ہے اور یہی درست ہے۔ ہاں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلے قول میں مذکور صورت کو طلاق سنت کہنے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے اگرچہ یہ بہتر نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو طلاق پر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بے فائدہ ہے مگر جمہور اہل علم اس کے وقوع کے قائل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت اس طرح ہے کہ جب عورت پاک ہو اور اس پاکی کے دنوں میں عورت سے جماع نہ کیا ہو تو اسے ایک طلاق دے، پھر جب دوبارہ اسے حیض آئے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے دوسری طلاق دے پھر جب (تیسری بار) حیض سے ہو جائے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے ایک اور طلاق دے۔ پھر اس کے بعد عورت ایک حیض کی عدت گزارے۔ اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی اسی طرح بتایا۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سنت کے موافق طلاق کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق ہے۔ ۲؎ : یعنی ہر طہر میں ایک طلاق دینا سنت کے مطابق ہے، جب کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا منع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah that he said: "The Sunnah divorce is a divorce issued when she is pure (not menstruating) without having had intercourse with her. If she menstruates and becomes pure again, give her another divorce, and if she menstruates and becomes pure again, give her another divorce, then after that, she should wait for another menstrual cycle." (One of the narrators) Al-A'mash said: "I asked Ibrahim, and he said something similar.