Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Concession Allowing That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3405.
حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ نے کہا: مجھے (میرے خاوند) ابوعمروبن حفص مخزومی نے تین طلاقیں دے دیں۔ حضرت خالد بن ولید ؓ بنومخزوم کے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابو عمروبن حفص نے اپنی بیوی فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے دوران عدت اخراجات ملیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے نہ اخراجات ملیں گے اور نہ رہائش۔“
تشریح:
اس روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کہ انہیں تین طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں یا الگ الگ۔ الفاظ دونوں معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ دوسری روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل تیسری طلاق دی تھی۔ اسے بتہ بھی کہا گیا ہے۔ پہلی طلاقوں کو ساتھ ملا کر تین کہہ دیا گیا۔ تمام روایات کا ظاہری تضاد ختم کرنے کے لیے یہ تطبیق ضروری ہے‘ خصوصاً جب کہ تین اکٹھی دینے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی تھی۔(دیکھیے،روایت:۳۴۳۰)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3407
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3405
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3434
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ نے کہا: مجھے (میرے خاوند) ابوعمروبن حفص مخزومی نے تین طلاقیں دے دیں۔ حضرت خالد بن ولید ؓ بنومخزوم کے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابو عمروبن حفص نے اپنی بیوی فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے دوران عدت اخراجات ملیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے نہ اخراجات ملیں گے اور نہ رہائش۔“
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کہ انہیں تین طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں یا الگ الگ۔ الفاظ دونوں معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ دوسری روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل تیسری طلاق دی تھی۔ اسے بتہ بھی کہا گیا ہے۔ پہلی طلاقوں کو ساتھ ملا کر تین کہہ دیا گیا۔ تمام روایات کا ظاہری تضاد ختم کرنے کے لیے یہ تطبیق ضروری ہے‘ خصوصاً جب کہ تین اکٹھی دینے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی تھی۔(دیکھیے،روایت:۳۴۳۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی ؓ نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید ؓ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Fatimah bint Qais narrated that Abu 'Amr bin Hafs Al-Makhzumi divorced her thrice. Khalid bin Al-Walid went with a group of (the tribe of) Makhzum to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: "O Messenger of Allah! Abu 'Amr bin Hafs has divorced Fatimah thrice, is she entitled to provision?" He said: "She is not entitled to provision nor shelter