باب: تین طلاق والی عورت کسی نکاح کے ساتھ (پہلے خاوند کے لیے) حلال ہوسکتی ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Making A Thrice-Divorced Woman Lawful (To Return To Her First Husband) And The Marriage That Makes T)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3413.
حضرت عبدالرحمن بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت غُمَیْصَاء یا رمیصاء نبیﷺ کے پاس آئی اور اپنے خاوند کی شکایت کرنے لگی کہ وہ جماع نہیں کرسکتا۔ اتنے میں اس کا خاوند بھی آگیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جھوٹ بولتی ہے۔ میں اس کے ساتھ جماع کرتا ہوں لیکن یہ ا پنے پہلے خاوند کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے یہ جائز نہیں حتیٰ کہ تو اس سے جماع کرے۔“
تشریح:
(1) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے بقول خاوند جماع کے قابل نہیں تھا۔ اور جب تک وہ جماع نہ کرے اور طلاق نہ دے‘ ا س وقت تک وہ پہلے خاوند کے پاس نہیں جاسکتی تھی‘ لہٰذا اس کا بیان اس کے خلاف پڑگیا۔ (2) رُمَیْصَاء حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کا لقب بھی تھا مگر یہ کوئی اور عورت تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3415
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3413
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3442
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت غُمَیْصَاء یا رمیصاء نبیﷺ کے پاس آئی اور اپنے خاوند کی شکایت کرنے لگی کہ وہ جماع نہیں کرسکتا۔ اتنے میں اس کا خاوند بھی آگیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جھوٹ بولتی ہے۔ میں اس کے ساتھ جماع کرتا ہوں لیکن یہ ا پنے پہلے خاوند کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے یہ جائز نہیں حتیٰ کہ تو اس سے جماع کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے بقول خاوند جماع کے قابل نہیں تھا۔ اور جب تک وہ جماع نہ کرے اور طلاق نہ دے‘ ا س وقت تک وہ پہلے خاوند کے پاس نہیں جاسکتی تھی‘ لہٰذا اس کا بیان اس کے خلاف پڑگیا۔ (2) رُمَیْصَاء حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کا لقب بھی تھا مگر یہ کوئی اور عورت تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبیداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ غمیصاء یا رمیصاء نامی عورت اپنے شوہر کی شکایت لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی کہ وہ اس کے پاس نہیں آتا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کا شوہر بھی آ گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جھوٹی عورت ہے، وہ اس کے پاس جاتا ہے، لیکن یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی ہے (اس لیے ایسا کہہ رہی ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تمہارے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کا شہد چکھ نہ لو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin 'Abbas that Al-Ghumaisa or Ar-Rumaisa' came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) complaining that her husband would not have intercourse with her. It was not long before her husband came and said: "O Messenger of Allah, she is lying; he is having intercourse with her, but she wants to go back to her first husband." The Messenger of Allah said: "She cannot do that until she tastes his sweetness.