باب: تین طلاق والی عورت کسی نکاح کے ساتھ (پہلے خاوند کے لیے) حلال ہوسکتی ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Making A Thrice-Divorced Woman Lawful (To Return To Her First Husband) And The Marriage That Makes T)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3415.
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺسے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے‘ پھر کوئی اور آدمی اس سے نکاح کرلیتا ہے‘ پھر وہ دروازہ بند کرکے پردہ لٹکا لیتا ہے لیکن جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتنے سے وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی حتیٰ کہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرے۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی) فرماتے ہیں: یہ (سفیان والی سند شعبہ کی مذکورہ سند سے) درستی کے زیادہ لائق ہے (لیکن دونوں کا متن شواہد کی رو سے صحیح ہے)۔
تشریح:
معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں خلوت صحیحہ جماع کے قائم مقام نہیں اگرچہ بعض دیگر مسائل میں خلوت صحیحہ کو جماع سمجھا جاتا ہے۔ خلوت صحیحہ یہ ہے کہ خاوند اور بیوی علیحدہ پردے میں ہوں اور جماع سے کوئی شرعی‘ طبی یا اخلاقی رکاوٹ نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3417
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3415
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3444
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺسے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے‘ پھر کوئی اور آدمی اس سے نکاح کرلیتا ہے‘ پھر وہ دروازہ بند کرکے پردہ لٹکا لیتا ہے لیکن جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتنے سے وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی حتیٰ کہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرے۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی) فرماتے ہیں: یہ (سفیان والی سند شعبہ کی مذکورہ سند سے) درستی کے زیادہ لائق ہے (لیکن دونوں کا متن شواہد کی رو سے صحیح ہے)۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں خلوت صحیحہ جماع کے قائم مقام نہیں اگرچہ بعض دیگر مسائل میں خلوت صحیحہ کو جماع سمجھا جاتا ہے۔ خلوت صحیحہ یہ ہے کہ خاوند اور بیوی علیحدہ پردے میں ہوں اور جماع سے کوئی شرعی‘ طبی یا اخلاقی رکاوٹ نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں (مغلظہ) دے دیتا ہے پھر اس سے دوسرا آدمی نکاح کر لیتا ہے اور (اسے لے کر) دروازہ بند کر لیتا ہے، پردے گرا دیتا ہے، (کہ کوئی اندر نہ آ سکے) پھر اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دیتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ پہلے والے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک اس کا دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کر لے۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث صواب سے قریب تر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar said: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was asked about a man who divorced his wife three times, then another man married her and he closed the door and drew the curtain, then divorced her before consummating the marriage with her. He said: "She is not permissible for the first one (to remarry her) until the second one has had intercourse with her.