باب: تین طلاقوں والی کو قصداً پہلے خاوند کے لیے حلال کرنا سخت گناہ ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Making A Thrice-Divorced Woman Lawful (To Return To Her First Husband), And The Stern Warning Concer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3416.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جسم میں رنگ بھرنے والی‘ بھروانے والی‘ زائد بال ملانے والی اور جسے زائد بال لگائے جائیں‘ سود کھانے والے اور کھلانے والے‘ حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے‘ ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔
تشریح:
(1) یہ لوگ چونکہ فطرت انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اس لیے لعنت کے مستحق ہیں۔ (2) ”رنگ بھرنے والی“ جسم کو پہلے سوئی کے ساتھ چھیدا جاتا ہے‘ پھر ان سوراخوں میں سرمہ یا نیل ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ رنگ بعد میں سبز یا نیلگیوں نظر آتا ہے۔ اس کا میں غیر ضرورتی تکلف ہے۔ صرف حصول حسن کے لیے اپنے آپ کو چھیدنا فطرت کے خلاف ہے۔ حسن اصل نہیں‘ انسان اصل ہے۔ (3) ”بال ملانے والی“ اصل بالوں کے ساتھ زائد جعلی بال ملانا دھوکا دہی اور جعل سازی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے‘ اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کردیا گیا۔ (4) ”سود لینے دینے والا“ سود کی بنیاد کنجوسی اور خود غرضی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے،اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کر دیا گیا۔ (5) ”حلالہ کرنے والا“ یعنی مطلقہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرنے والا کہ ایک دو دن جماع کے بعد چھوڑ دوں گا‘ یہ انسانی فطرت کے بجائے حیوانی فطرت ہے۔ انسانی فطرت تو مستقل نکاح کا تقاضا کرتی ہے جو انتہائی پاکیزہ عمل ہے جب کہ ”حلالہ“ تو سانڈ کی فطرت ہے اور انسانی فطرت کو مسخ کرنے والی چیزہے‘ لہٰذا یہ ملعون فعل ہے اور ایسا فعل نکاح کی بجائے زنا ہے۔ اس سے حلت جیسا پاکیزہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بعض حلیہ ساز لوگوں نے اسے مشروع بنا دیا ہے۔ افسوس! ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3418
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3416
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3445
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جسم میں رنگ بھرنے والی‘ بھروانے والی‘ زائد بال ملانے والی اور جسے زائد بال لگائے جائیں‘ سود کھانے والے اور کھلانے والے‘ حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے‘ ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ لوگ چونکہ فطرت انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اس لیے لعنت کے مستحق ہیں۔ (2) ”رنگ بھرنے والی“ جسم کو پہلے سوئی کے ساتھ چھیدا جاتا ہے‘ پھر ان سوراخوں میں سرمہ یا نیل ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ رنگ بعد میں سبز یا نیلگیوں نظر آتا ہے۔ اس کا میں غیر ضرورتی تکلف ہے۔ صرف حصول حسن کے لیے اپنے آپ کو چھیدنا فطرت کے خلاف ہے۔ حسن اصل نہیں‘ انسان اصل ہے۔ (3) ”بال ملانے والی“ اصل بالوں کے ساتھ زائد جعلی بال ملانا دھوکا دہی اور جعل سازی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے‘ اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کردیا گیا۔ (4) ”سود لینے دینے والا“ سود کی بنیاد کنجوسی اور خود غرضی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے،اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کر دیا گیا۔ (5) ”حلالہ کرنے والا“ یعنی مطلقہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرنے والا کہ ایک دو دن جماع کے بعد چھوڑ دوں گا‘ یہ انسانی فطرت کے بجائے حیوانی فطرت ہے۔ انسانی فطرت تو مستقل نکاح کا تقاضا کرتی ہے جو انتہائی پاکیزہ عمل ہے جب کہ ”حلالہ“ تو سانڈ کی فطرت ہے اور انسانی فطرت کو مسخ کرنے والی چیزہے‘ لہٰذا یہ ملعون فعل ہے اور ایسا فعل نکاح کی بجائے زنا ہے۔ اس سے حلت جیسا پاکیزہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بعض حلیہ ساز لوگوں نے اسے مشروع بنا دیا ہے۔ افسوس! ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) cursed the woman who tattoos and the one tattooed, the woman who fixed hair extensions and the one who had her hair get extended, the consumer of Riba and the one who pays it, and Al-Muhallil and Al-Muhallal Lahu.