باب: بیوی کو کہنا ’’اپنے گھر چلی جا‘‘ جب کہ ارادہ طلاق کا نہ ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: "Go To Your Family" Does Not Necessarily Mean Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3424.
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک نے کہا: میں نے اپنے والد محترم حضرت کعب بن مالک ؓ کو بیان فرماتے سنا‘ اور میرے والد ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے مجھے اور میرے دوسرے دو ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ رسول اللہﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی عورتوں سے جدا رہو۔ میں نے قاصد سے کہا: میں اسے طلاق دے دں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں‘ بلکہ صرف اس سے الگ رہ‘ اس کے قریب نہ جانا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تو اپنے میکے چلی جا اور ان کے پاس رہ۔ چنانچہ وہ میکے چلی گئی۔
تشریح:
(1) ”اس کے قریب نہ جانا“ یعنی جماع وغیرہ نہ کرنا۔ بیوی سے بول چال منع نہ تھی۔ حضرت کعب چونکہ نوجوان تھے‘ انہوں نے خطرہ محسوس فرمایا کہ پاس رہنے کی صورت میں کہیں جماع وغیرہ نہ ہوجائے‘ اس لیے انہوں نے از خود ہی بیوی کو میکے بھیج دیا۔ (2) ”جن کی توبہ قبول ہوئی“ غزوہ تبوک میں جہاد پر جانا فرض عین ہوگیا تھا‘ لہٰذا جو نہیں گئے‘ ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ منافقین توجھوٹ بول کر جان چھڑا گئے مگر جو تین مخلص مسلمان سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے‘ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی‘ کوئی عذر نہیں گھڑا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے تمام اسلامی معاشرے کو ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا‘ کوئی ان سے سلام دعا تک نہ کرتا تھا حتیٰ کہ ان پر زمین تنگ ہوگئی مگر یہ اللہ او ر اس کے رسول کے وفادار رہے۔ آخر پچاس دن کی صبر آزمائش کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کا حکم اترا اور ان کی آزمائش ختم ہوئی۔ ان بزرگوں نے ایسی سخت ترین آزمائش میں صبر عظیم کا مظاہرہ کیا اور جنت کے حق دار پائے۔ ان کے نام یہ ہیں: حضرت کعب بن مالک‘ حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهم وَأَرْضَاهمُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3426
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3424
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3453
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک نے کہا: میں نے اپنے والد محترم حضرت کعب بن مالک ؓ کو بیان فرماتے سنا‘ اور میرے والد ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے مجھے اور میرے دوسرے دو ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ رسول اللہﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی عورتوں سے جدا رہو۔ میں نے قاصد سے کہا: میں اسے طلاق دے دں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں‘ بلکہ صرف اس سے الگ رہ‘ اس کے قریب نہ جانا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تو اپنے میکے چلی جا اور ان کے پاس رہ۔ چنانچہ وہ میکے چلی گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”اس کے قریب نہ جانا“ یعنی جماع وغیرہ نہ کرنا۔ بیوی سے بول چال منع نہ تھی۔ حضرت کعب چونکہ نوجوان تھے‘ انہوں نے خطرہ محسوس فرمایا کہ پاس رہنے کی صورت میں کہیں جماع وغیرہ نہ ہوجائے‘ اس لیے انہوں نے از خود ہی بیوی کو میکے بھیج دیا۔ (2) ”جن کی توبہ قبول ہوئی“ غزوہ تبوک میں جہاد پر جانا فرض عین ہوگیا تھا‘ لہٰذا جو نہیں گئے‘ ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ منافقین توجھوٹ بول کر جان چھڑا گئے مگر جو تین مخلص مسلمان سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے‘ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی‘ کوئی عذر نہیں گھڑا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے تمام اسلامی معاشرے کو ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا‘ کوئی ان سے سلام دعا تک نہ کرتا تھا حتیٰ کہ ان پر زمین تنگ ہوگئی مگر یہ اللہ او ر اس کے رسول کے وفادار رہے۔ آخر پچاس دن کی صبر آزمائش کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کا حکم اترا اور ان کی آزمائش ختم ہوئی۔ ان بزرگوں نے ایسی سخت ترین آزمائش میں صبر عظیم کا مظاہرہ کیا اور جنت کے حق دار پائے۔ ان کے نام یہ ہیں: حضرت کعب بن مالک‘ حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهم وَأَرْضَاهمُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک ؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے(اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے۱؎، کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو،اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اورانہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ ۲؎ : مرارہ بن ربیع العمری، ھلال بن امیہ الواقفی رضی الله عنہما۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdur-Rahman bin 'Abdullah bin Ka'b bin Malik narrated that his father said: "I heard my father Ka'b bin Malik -who was one of the three whose repentance was accepted- say: 'The Messenger of Allah sent word to me and to my two companions saying: The Messenger of Allah commands you to keep away from your wives. I said to his envoy: Shall I divorce my wife, or what should I do? He said: No, just keep away from her, and do not approach her. I said to my wife: Go to your family and stay with them. So she went to them.'"