باب: بیوی کو کہنا ’’اپنے گھر چلی جا‘‘ جب کہ ارادہ طلاق کا نہ ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: "Go To Your Family" Does Not Necessarily Mean Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3427.
حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد محترم سے بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں نبیﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اپنی عورت سے علیحدہ رہ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں؟ اس نے کہا: نہیں۔ لیکن اس کے قریب نہ جانا۔ اس روایت میں راوی نے الْحَقِي بِأَهْلِكِ ”اپنے میکے چلی جا“ کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
تشریح:
(1) واضح رہے کہ اس راویت کو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگ بیان کرتے ہیں۔ ان کے تین بیٹے‘ عبداللہ‘ عبیداللہ اور عبدالرحمن اور ان کے پوتے عبدالرحمن بن عبداللہ۔ اور عبدالرحمن بن عبداللہ کبھی تو اپنے والد عبداللہ کے واسطے سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں‘ کبھی اپنے چچا عبیداللہ کے واسطے سے اور کبھی بلاواسطہ‘ لیکن یہ اختلاف کوئی مضر نہیں کیونکہ یہ حدیث ان تمام طرق سے ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) اس روایت کا تکرار سند ومتن کے بعض اختلافات واضح ہوجاتے ہیں بلکہ حل بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ اوپر کوشش کی گئی ہے۔ تکرار کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3429
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3427
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3456
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد محترم سے بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں نبیﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اپنی عورت سے علیحدہ رہ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں؟ اس نے کہا: نہیں۔ لیکن اس کے قریب نہ جانا۔ اس روایت میں راوی نے الْحَقِي بِأَهْلِكِ ”اپنے میکے چلی جا“ کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) واضح رہے کہ اس راویت کو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگ بیان کرتے ہیں۔ ان کے تین بیٹے‘ عبداللہ‘ عبیداللہ اور عبدالرحمن اور ان کے پوتے عبدالرحمن بن عبداللہ۔ اور عبدالرحمن بن عبداللہ کبھی تو اپنے والد عبداللہ کے واسطے سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں‘ کبھی اپنے چچا عبیداللہ کے واسطے سے اور کبھی بلاواسطہ‘ لیکن یہ اختلاف کوئی مضر نہیں کیونکہ یہ حدیث ان تمام طرق سے ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) اس روایت کا تکرار سند ومتن کے بعض اختلافات واضح ہوجاتے ہیں بلکہ حل بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ اوپر کوشش کی گئی ہے۔ تکرار کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا: اچانک رسول اللہ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہو جاؤ، میں نے اس سے کہا: میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے «الْحَقِي بِأَهْلِكِ» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdur-Rahman bin Ka'b bin Malik that his father said: "The envoy of the Messenger of Allah came to me and said: 'Keep away from your wife.' I said: 'Should I divorce her?' He said: 'No, but do not approach her.'" And he (the narrator) did not mention (the words): "Go to your family."