Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Divorce Of A Slave)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3429.
بنو نوفل کے مولیٰ حضرت ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کہ ایک غلام نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں‘ پھر وہ دونوں آزاد ہوگئے‘ کیا اب وہ دوبارہ اس سے شادی کرسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ سائل نے پوچھا: آپ یہ کس سے نقل فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے یہ فتویٰ ارشاد فرمایا ہے۔ عبدالرزاق نے کہا: (عبداللہ) ابن مبارک نے حضرت معمر سے کہا: یہ حسن کون ہے؟ اس نے بہت بھاری پتھر اٹھایا ہے۔
تشریح:
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث قابل عمل نہیں ہوگی‘ اس لیے انہوں نے اسے ”بھاری پتھر“ قراردیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3431
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3429
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3458
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
بنو نوفل کے مولیٰ حضرت ابوالحسن سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کہ ایک غلام نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں‘ پھر وہ دونوں آزاد ہوگئے‘ کیا اب وہ دوبارہ اس سے شادی کرسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ سائل نے پوچھا: آپ یہ کس سے نقل فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے یہ فتویٰ ارشاد فرمایا ہے۔ عبدالرزاق نے کہا: (عبداللہ) ابن مبارک نے حضرت معمر سے کہا: یہ حسن کون ہے؟ اس نے بہت بھاری پتھر اٹھایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث قابل عمل نہیں ہوگی‘ اس لیے انہوں نے اسے ”بھاری پتھر“ قراردیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بنی نوفل کے غلام حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ سے ایک غلام کے متعلق جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر وہ دونوں آزاد کر دیے گئے، پوچھا گیا: کیا وہ اس سے شادی کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، (کر سکتا ہے) کسی نے کہا کس سے سن کر یہ بات کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلہ میں یہی فتویٰ دیا ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے کہا: یہ حسن کون ہیں؟ انہوں نے تو اپنے سر پر ایک بڑی چٹان لاد لی ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : غلام دو طلاق دیدے تو عورت بائنہ ہو جاتی ہے، بائنہ ہو جانے کے بعد عورت جب تک کسی اور سے شادی نہ کر لے اور طلاق یا موت کسی بھی وجہ سے اس کی علیحدگی نہ ہو جائے تو وہ عورت پہلے شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں دونوں کو آزاد ہو جانے کے بعد بغیر حلالہ کے شادی کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اب یہ روایت - اللہ نہ کرے- غلط ہوئی تو اس طرح کی سبھی شادیوں کا وبال اس راوی حسن کے ذمہ آئے گا اور وہ گویا ایک بڑی چٹان کے نیچے دب کر رہ جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Al-Hasan, the freed slave of Banu Nawfal, said: "Ibn 'Abbas was asked about a slave who divorced his wife twice, then they were set free; could he marry her? He said: 'Yes.' He said: 'From whom (did you hear that)?' He said: 'The Messenger of Allah issued a Fatwa to that effect.'" (One of the narrators) 'Abdur-Razzaq said: "Ibn Al-Mubarak said to Ma'mar: 'Which Al-Hasan is this? He has taken on a heavy burden.'"