Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: When Does The Divorce Of A Boy Count?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3432.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ احد کے موقع پر میرا جائزہ لیا۔ میں اس وقت چودہ سال کا تھا۔ آپ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی‘ پھر غزوہ خندق کے موقع پر جائزہ لیا تو میں پندرہ سال کا ہوچکا تھا۔ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
تشریح:
سرکاری دستاویزات میں پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ اور اس سے کم کو نابالغ لکھا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس عمر وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ باقی دو علامات میں ہیر پھیر ممکن ہے اگرچہ وہ قطعی علامات ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3434
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3432
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3461
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ احد کے موقع پر میرا جائزہ لیا۔ میں اس وقت چودہ سال کا تھا۔ آپ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی‘ پھر غزوہ خندق کے موقع پر جائزہ لیا تو میں پندرہ سال کا ہوچکا تھا۔ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
حدیث حاشیہ:
سرکاری دستاویزات میں پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ اور اس سے کم کو نابالغ لکھا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس عمر وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ باقی دو علامات میں ہیر پھیر ممکن ہے اگرچہ وہ قطعی علامات ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے)۱۴سال کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اورغزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that he presented himself to the Messenger of Allah on the Day of Uhud when he was fourteen years old, but he did not permit him (to join the army). He presented himself on the Day of Al-Khandaq when he was fifteen years old, and he permitted him (to join the army).