باب: جب کلام سے ایسے معنی مقصود ہوں جن کا وہ کلام متحمل ہوتو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Speaking When One Means What The Words Appear To Mean)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3438.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”اعمال کا اعتبار نیت کے ساتھ ہے۔ ہر آدمی کو اس کی نیت ملے گی۔ چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور ا سکے رسول کی خاطر ہوگی‘ اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہی کا ثواب ملے گا اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت (سے شادی) کی خاطر ہوگی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔“
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے جو معنیٰ مراد لے گا‘ وہی معتبر ہوگا بشرطیکہ کلام ان کا احتمال رکھتا ہو۔ کوئی مخاطب اپنی مرضی کے معنیٰ کسی کلام سے کشید نہیں کرسکتا۔ اپنے کلام کا مقصود بیان کرنا متکلم کا حق ہے کہ مخاطب کا۔ چونکہ نیت اصل ہے اور نیت متکل ہی بیان کرسکتا ہے‘ لہٰـذا اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولے جو طلاق کے معنیٰ کا بھی احتمال رکھتا ہوں اور دوسرے معنیٰ کا بھی‘ طلاق تبھی مراد ہوگی اگر متکلم طلاق کے معنیٰ مراد لے ورنہ طلاق نہیں ہوگی‘ مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ”میرے گھر سے نکل جا۔“ یہ حدیث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۷۵۔ کتاب الوضو)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3440
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3438
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3467
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”اعمال کا اعتبار نیت کے ساتھ ہے۔ ہر آدمی کو اس کی نیت ملے گی۔ چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور ا سکے رسول کی خاطر ہوگی‘ اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہی کا ثواب ملے گا اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت (سے شادی) کی خاطر ہوگی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔“
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے جو معنیٰ مراد لے گا‘ وہی معتبر ہوگا بشرطیکہ کلام ان کا احتمال رکھتا ہو۔ کوئی مخاطب اپنی مرضی کے معنیٰ کسی کلام سے کشید نہیں کرسکتا۔ اپنے کلام کا مقصود بیان کرنا متکلم کا حق ہے کہ مخاطب کا۔ چونکہ نیت اصل ہے اور نیت متکل ہی بیان کرسکتا ہے‘ لہٰـذا اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولے جو طلاق کے معنیٰ کا بھی احتمال رکھتا ہوں اور دوسرے معنیٰ کا بھی‘ طلاق تبھی مراد ہوگی اگر متکلم طلاق کے معنیٰ مراد لے ورنہ طلاق نہیں ہوگی‘ مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ”میرے گھر سے نکل جا۔“ یہ حدیث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۷۵۔ کتاب الوضو)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا، جو اللہ و رسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کا ثواب ملے گا) اور جو کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے دنیا ملے گی، یا عورت حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے عورت ملے گی۔ ہجرت جس قصد و ارادے سے ہو گی اس کا حاصل اس کے اعتبار سے ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: "Actions are but by intentions, and each man will have but that which he intended. Whoever emigrated for the sake of Allah and His Messenger, his emigration was for the sake of Allah and His Messenger, and whoever emigrated for the sake of some worldly gain or to marry some woman, his emigration was for that for which he emigrated."