تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے جو معنیٰ مراد لے گا‘ وہی معتبر ہوگا بشرطیکہ کلام ان کا احتمال رکھتا ہو۔ کوئی مخاطب اپنی مرضی کے معنیٰ کسی کلام سے کشید نہیں کرسکتا۔ اپنے کلام کا مقصود بیان کرنا متکلم کا حق ہے کہ مخاطب کا۔ چونکہ نیت اصل ہے اور نیت متکل ہی بیان کرسکتا ہے‘ لہٰـذا اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولے جو طلاق کے معنیٰ کا بھی احتمال رکھتا ہوں اور دوسرے معنیٰ کا بھی‘ طلاق تبھی مراد ہوگی اگر متکلم طلاق کے معنیٰ مراد لے ورنہ طلاق نہیں ہوگی‘ مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ”میرے گھر سے نکل جا۔“ یہ حدیث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۷۵۔ کتاب الوضو)