باب: جب کوئی شخص ایک واضح کلمہ بول کر ایسے معنی مراد لے جن کا وہ احتمال نہیں رکھتا‘ اس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا اور وہ بے فائدہ ہوگا
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Saying Something, And Intending Something Other Than The Apparent Meaning, Carries No Weight)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3439.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”دیکھو! اللہ تعالیٰ قریش کے گالی گلوچ اور لعن طعن کو مجھ سے کیسے دور رکھتا ہے؟ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں جب کہ میں تو محمد ہوں۔“ (ﷺ)
تشریح:
قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو برا کہنے لگتے لیکن وہ لعن طعن کے وقت محمد ﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنیٰ تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیضین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچا لیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جس سے وہ معنیٰ کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنیٰ کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نیت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنیٰ نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ”میں نے تجھے انعام دیا“ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3441
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3439
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3468
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”دیکھو! اللہ تعالیٰ قریش کے گالی گلوچ اور لعن طعن کو مجھ سے کیسے دور رکھتا ہے؟ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں جب کہ میں تو محمد ہوں۔“ (ﷺ)
حدیث حاشیہ:
قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو برا کہنے لگتے لیکن وہ لعن طعن کے وقت محمد ﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنیٰ تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیضین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچا لیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جس سے وہ معنیٰ کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنیٰ کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نیت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنیٰ نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ”میں نے تجھے انعام دیا“ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ذرا دیکھو تو(غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہٰذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنیٰ و مفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah narrated that the Messenger of Allah said: "Look at how Allah diverts the insults and curses of Quraish from me. They insult 'Mudhammam' and curse 'Mudhammam' -but I am Muhammad."