Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Setting A Time Limit For Making A Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3440.
نبیﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم ہوا تو آپ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تجھ سے ایک بات کرتا ہوں۔ جواب دینے میں جلدی کی ضرورت نہیں۔ بے شک اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔“ (آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ) آپ جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ نے یہ تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ…﴾ ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا کی زندگی اور زیب وزینت کی طالب ہوتو آؤ میں تمہیں اچھے طریقے سے فارغ کردوں…۔“ میں نے فوراً کہا: کیا میں اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ طلب کروں؟ میں تو ہر حال میں اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسول اور آخرت ہی کی طلب گار ہوں‘ پھر دیگر ازواج مطہرات نے بھی اسی طرح کہا جس طرح میں نے کہا تھا۔ تو جب رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں سے یہ کچھ کہا اور انہوں نے آپ ہی کو اختیار کیا تو یہ طلاق نہ بنی کیونکہ انہوں نے (بجائے طلاق کے) آپ کو اختیار کیا۔
تشریح:
(1) خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے کہ اگر تو چاہے تو طلاق لے لے۔ اگر عورت جواب میں کہے: میں نے طلاق لے لی تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ البتہ اختلاف ہے کہ وہ طلاق رجعی مدت مقرر کردے تو اس مدت میں بھی وہ کسی وقت طلاق اختیار کرسکتی ہے جیسے رسول اللہﷺنے حضرت عائشہؓ کو مہلت دی کہ فوراً جواب نہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد جواب دے دینا۔ (2) نبیﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے ابتدائی دور میں آپ سے اخراجات کے مطالبے کیے تھے جو آپ کی دسترس سے باہر تھے‘ نیز وہ آپ کی نبوی مزاج کے بھی خلاف تھے‘ اس لیے آپ کو پریشانی ہوئی۔ اللہ تعا لیٰ نے حل تجویز فرمایا کہ آپ کی بیویوں کا مزاج‘ نبوی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔ توجہ دنیا کی بجائے عقبیٰ کی طرف ہو۔ اگر ہو اس مزاج کو اختیار نہ کرسکیں تو آپ سے طلاق لے لیں اور دنیا کہیں اور تلاش کرلیں۔ آپ نے یہی بات اپنی بیویوں سے ارشاد فرمائی۔ مقصد ان کی تربیت تھا۔ ایک ماہ تک وہ رسول اللہﷺ کی جدائی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں‘ لہٰذا سب نے رسول اللہﷺ اور آخرت کو پسند کیا اور ہر عسرویسر میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور پھر آخر زندگی تک ان کی زبان سے کوئی مطالبہ نہ نکلا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهُن وَأَرْضَاهُنَّ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3442
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3440
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3469
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
نبیﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم ہوا تو آپ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تجھ سے ایک بات کرتا ہوں۔ جواب دینے میں جلدی کی ضرورت نہیں۔ بے شک اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔“ (آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ) آپ جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ نے یہ تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ…﴾ ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا کی زندگی اور زیب وزینت کی طالب ہوتو آؤ میں تمہیں اچھے طریقے سے فارغ کردوں…۔“ میں نے فوراً کہا: کیا میں اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ طلب کروں؟ میں تو ہر حال میں اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسول اور آخرت ہی کی طلب گار ہوں‘ پھر دیگر ازواج مطہرات نے بھی اسی طرح کہا جس طرح میں نے کہا تھا۔ تو جب رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں سے یہ کچھ کہا اور انہوں نے آپ ہی کو اختیار کیا تو یہ طلاق نہ بنی کیونکہ انہوں نے (بجائے طلاق کے) آپ کو اختیار کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے کہ اگر تو چاہے تو طلاق لے لے۔ اگر عورت جواب میں کہے: میں نے طلاق لے لی تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ البتہ اختلاف ہے کہ وہ طلاق رجعی مدت مقرر کردے تو اس مدت میں بھی وہ کسی وقت طلاق اختیار کرسکتی ہے جیسے رسول اللہﷺنے حضرت عائشہؓ کو مہلت دی کہ فوراً جواب نہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد جواب دے دینا۔ (2) نبیﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے ابتدائی دور میں آپ سے اخراجات کے مطالبے کیے تھے جو آپ کی دسترس سے باہر تھے‘ نیز وہ آپ کی نبوی مزاج کے بھی خلاف تھے‘ اس لیے آپ کو پریشانی ہوئی۔ اللہ تعا لیٰ نے حل تجویز فرمایا کہ آپ کی بیویوں کا مزاج‘ نبوی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔ توجہ دنیا کی بجائے عقبیٰ کی طرف ہو۔ اگر ہو اس مزاج کو اختیار نہ کرسکیں تو آپ سے طلاق لے لیں اور دنیا کہیں اور تلاش کرلیں۔ آپ نے یہی بات اپنی بیویوں سے ارشاد فرمائی۔ مقصد ان کی تربیت تھا۔ ایک ماہ تک وہ رسول اللہﷺ کی جدائی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں‘ لہٰذا سب نے رسول اللہﷺ اور آخرت کو پسند کیا اور ہر عسرویسر میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور پھر آخر زندگی تک ان کی زبان سے کوئی مطالبہ نہ نکلا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهُن وَأَرْضَاهُنَّ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا۱؎ تو رسول اللہ ﷺ نے اس (اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا“ ۲؎ ، آپ ﷺ بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے، پھرآپ ﷺ نے آیت: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا» ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔“ (الأحزاب: ۲۸) تک پڑھی (یہ آیت سن کر) میں نے کہا: میں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے صلاح و مشورہ لوں؟ (مجھے کسی سے مشورہ نہیں لینا ہے) میں اللہ عزوجل، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) آپ ﷺ کی دوسری بیویوں نے بھی ویسا ہی کیا (اور کہا) جیسا میں نے کیا (اور کہا) تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے ان سے کہنے اور ان کے رسول اللہ ﷺ کو منتخب کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔۴؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی دنیا اور اس کی زینت اور نبی کی مصاحبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لیں۔ ۲؎ : معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی الله عنہا کے خیار کی مدت ماں باپ سے مشورہ لینے تک متعین کی۔ ۴؎ : اس لیے کہ وہ بیویاں تو پہلے ہی سے تھیں، اگر وہ آپ کو منتخب نہ کرتیں تب طلاق ہو جاتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah, the wife of the Prophet, said: "When the Messenger of Allah was commanded to give his wives the choice, he started with me and said: 'I am going to say something to you and you do not have to rush (to make a decision) until you consult your parents.'" She said: "He knew that my parents would never tell me to leave him." She said: "Then he recited this Verse: 'O Prophet! Say to your wives: If you desire the life of this world, and its glitter, then come! I will make a provision for you and set you free in a handsome manner.' I said: 'Do I need to consult my parents concerning this? I desire Allah, the Mighty and Sublime, and His Messenger, and the home of the Hereafter.'" 'Aishah said: "Then the wives of the Prophet all did the same as I did, and that was not counted as a divorce, when the Messenger of Allah gave them the choice and they chose him."