باب: لونڈی آزاد ہو جائے اور اس کا خاوند غلام ہوتو اسے (نکاح ختم کرنے کا) اختیار ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Giving The Choice To A Slave Woman Who Has Been Set Free And Whose Husband Is Still A Slave)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3454.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے حضرت بریرہ کے بارے میں پوچھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اسے خرید لوں (اور آزاد کردوں) لیکن اس کے مالکوں نے ولا کی شرط لگا دی۔ آپﷺ نے فرمایا: ”اسے خرید لے‘ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔“ فرمایا: (اسی طرح) بریرہؓ کو اختیار دیا گیا جب کہ ان کا خاوند غلام تھا۔ پھر بعد میں میں راوئ حدیث (عبدالرحمن) نے کہا: میں نہیں جانتا (کہ وہ غلام تھا یا آزاد)۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ گوشت لایا گیا۔ گھر والوں نے کہا یہ بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ تھا اور ہمارے لیے تحفہ ہے۔“
تشریح:
”میں نہیں جانتا“ کہ وہ آزاد تھا یا غلام راوئ حدیث عبدالرحمن بن قاسم اس بارے میں متردد تھے۔ کبھی انہوں نے آزاد کہا‘ کبھی غلام اور کبھی کہا کہ پتہ نہیں آزاد تھا یا غلام۔ محفوظ بات یہی ہے کہ وہ غلام تھا۔ عروہ نے ان کی اس بات کی موافقت کی ہے۔ بعد میں واقع ہونے والے شک سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ پہلی بات بالجزم ہو اور اس میں اوثق راویوں کی موافقت بھی ہو۔ باقی تفصیلات پچھلے دو تین ابواب میں ذکر ہوچکی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا حسين بن علي والوليد بن عقبة عن
زائدة عن سماك عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير سماك- وهو ابن حرب-،
فعلى شرط مسلم وحده.
والوليد بن عقبة- وهو ابن المغيرة الكوفي الطحان-، وهو صدوق، وهو مقرون
كما ترى، وقد توبعا.
وحسين بن علي: هو الجُعْفِي.
وقد أخرجه مسلم عنه كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم (4/215) : حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة: حدثنا
حسين بن علي... به.
وأخرجه النسائي (2/103) من طريق أخرى عن حسين... به.
وأحمد (6/115) : ثنا معاوية بن عمرو: ثنا زائدة... به.
وعن معاوية: أخرجه البيهقي أيضاً (7/220) .
وقد توبع سماك؛ فراجع " الإرواء" (1873) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3456
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3454
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3484
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے حضرت بریرہ کے بارے میں پوچھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اسے خرید لوں (اور آزاد کردوں) لیکن اس کے مالکوں نے ولا کی شرط لگا دی۔ آپﷺ نے فرمایا: ”اسے خرید لے‘ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔“ فرمایا: (اسی طرح) بریرہؓ کو اختیار دیا گیا جب کہ ان کا خاوند غلام تھا۔ پھر بعد میں میں راوئ حدیث (عبدالرحمن) نے کہا: میں نہیں جانتا (کہ وہ غلام تھا یا آزاد)۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ گوشت لایا گیا۔ گھر والوں نے کہا یہ بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ تھا اور ہمارے لیے تحفہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
”میں نہیں جانتا“ کہ وہ آزاد تھا یا غلام راوئ حدیث عبدالرحمن بن قاسم اس بارے میں متردد تھے۔ کبھی انہوں نے آزاد کہا‘ کبھی غلام اور کبھی کہا کہ پتہ نہیں آزاد تھا یا غلام۔ محفوظ بات یہی ہے کہ وہ غلام تھا۔ عروہ نے ان کی اس بات کی موافقت کی ہے۔ بعد میں واقع ہونے والے شک سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ پہلی بات بالجزم ہو اور اس میں اوثق راویوں کی موافقت بھی ہو۔ باقی تفصیلات پچھلے دو تین ابواب میں ذکر ہوچکی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بریرہ ؓ کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے(اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے(پھر میں کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ”(اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔“ راوی کہتے ہیں:(عائشہ ؓ نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے“ (اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Yahya bin Abi Bukair Al-Karmani said: "Shu'bah narrated to us, from 'Abdur-Rahman bin Al-Qasim, from his father, from 'Aishah (RA). He (Shu'bah) said: "And he ('Abdur-Rahman) was the executor for his father." He (Shu'bah) said: "I was afraid to say to him: 'Did you hear this from your father.'" -- 'Aishah (RA) said: "I asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) about Barirah, as I wanted to buy her but it was stipulated that the Wala' would go to her (former) masters. He said: 'Buy her, for the Wala' is to the one who sets the slave free.' And she was given the choice, as her husband was a slave." Then he said, after that: "I do not know." --"And some meat was brought to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and they said: 'This is some of that which was given in charity to Barirah.' He said: 'It is charity for her and a gift for us.