Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: What Was Narrated Concerning Khul')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3465.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کے ہاتھ کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔“ وہ کہنے لگا: میں اس سے جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر رکھے رکھے“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) فرماتے ہیں: یہ خطا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصد یہ ہے کہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے متصل بیان کرنا خطا ہے۔ صحیح اس کا مرسل‘ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے کے بغیر ہوتا ہے۔ لیکن پیچھے حدیث: ۳۲۳۱ میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ ایک راوی کے مرسل بیان کرنے سے متصل بیان کرنے والوں کی روایت غلط نہیں ہوجاتی جبکہ متصل بیان کرنے والے ثقہ راوی ہوں۔ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس قسم کی مخالفت مضر نہیں‘ لہٰذا یہ موصولاً بھی مروی ہے اور مرسلاً بھی۔ (2) مندرجہ بالا دونوں روایات کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے دیکھیے: حدیث:۳۲۳۱۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3467
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3465
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3495
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کے ہاتھ کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔“ وہ کہنے لگا: میں اس سے جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر رکھے رکھے“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) فرماتے ہیں: یہ خطا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصد یہ ہے کہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے متصل بیان کرنا خطا ہے۔ صحیح اس کا مرسل‘ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے کے بغیر ہوتا ہے۔ لیکن پیچھے حدیث: ۳۲۳۱ میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ ایک راوی کے مرسل بیان کرنے سے متصل بیان کرنے والوں کی روایت غلط نہیں ہوجاتی جبکہ متصل بیان کرنے والے ثقہ راوی ہوں۔ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس قسم کی مخالفت مضر نہیں‘ لہٰذا یہ موصولاً بھی مروی ہے اور مرسلاً بھی۔ (2) مندرجہ بالا دونوں روایات کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے دیکھیے: حدیث:۳۲۳۱۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی، آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔“ اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو اسے رہنے دو۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے، اس کا متصل ہونا غلط ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that a man said: "O Messenger of Allah, I have a wife who does not object if anyone touches her." He said: "Divorce her." He said: "I cannot live without her." He said: "Then keep her.