باب: عورت کو ناجائز حمل ہونے کی صورت میں بھی لعان ہوسکتا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Li'an Because Of Pregnancy)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3467.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (عویمر) عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کروایا جب کہ وہ (بیوی) حاملہ تھی۔
تشریح:
(1) عورت کو حمل ٹھہر جائے‘ مگر خاوند کو یقین ہو کہ یہ حمل ہو کہ یہ حمل زنا سے ہے‘ میرا نہیں‘ تو وہ عدالت میں جا کردعویٰ کرسکتا ہے۔ عدالت عورت کو بھی بلائے گی اور ان کے درمیان لعان کروائے گی۔ گویا آنکھ سے کسی مرد کے ساتھ دیکھنا ضروری نہیں۔ زنا کا یقین ضروری ہے۔ (2) لعان لعنت سے ہے۔ چونکہ قسموں کے دوران میں آدمی جھوٹے پر لعنت ڈالتا ہے‘ اس لیے اس کارروائی کو لعان کہا جاتا ہے۔ (3) لعان سے حمل کی نفی ہوجائے گی اور بیٹا ماں کی طرف منسوب ہوگا جیسا کہ حدیث: ۳۵۰۷ میں آرہا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3469
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3467
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3497
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (عویمر) عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کروایا جب کہ وہ (بیوی) حاملہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) عورت کو حمل ٹھہر جائے‘ مگر خاوند کو یقین ہو کہ یہ حمل ہو کہ یہ حمل زنا سے ہے‘ میرا نہیں‘ تو وہ عدالت میں جا کردعویٰ کرسکتا ہے۔ عدالت عورت کو بھی بلائے گی اور ان کے درمیان لعان کروائے گی۔ گویا آنکھ سے کسی مرد کے ساتھ دیکھنا ضروری نہیں۔ زنا کا یقین ضروری ہے۔ (2) لعان لعنت سے ہے۔ چونکہ قسموں کے دوران میں آدمی جھوٹے پر لعنت ڈالتا ہے‘ اس لیے اس کارروائی کو لعان کہا جاتا ہے۔ (3) لعان سے حمل کی نفی ہوجائے گی اور بیٹا ماں کی طرف منسوب ہوگا جیسا کہ حدیث: ۳۵۰۷ میں آرہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور اس وقت اس کی بیوی حاملہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah conducted the procedure of Li'an between the 'Ajlani and his wife, who was pregnant.