باب: لعان کرنے والے خاوند بیوی سے لعان کے بعد توبہ کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Asking The Two Who Engaged In Li'an To Repent After Li'an)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3475.
حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہا: ایک آدمی اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے (اور ان میں لعان ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟) انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے بنو عجلان کے لعان کرنے والے خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔ اور آپ نے (بعد میں) فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرتا ہے؟“ آپ نے تین دفعہ فرمایا: انہوں نے انکار کیا تو آپ نے ان میں جدائی ڈال دی۔ وہ آدمی کہنے لگا: میرا مال؟ آپ نے فرمایا: ”تجھے کوئی مال نہیں ملے گا۔ اگر تو سچا ہے تو تو نے اس سے جماع وغیرہ بھی کیے ہیں۔ اور اگر تو جھوٹا ہے تو پھر تو تجھے مال مل ہی نہیں سکتا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لعان کے بعد ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے سمجھا ہے لیکن ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ نے لعان سے قبل ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا۔ تو ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے: ایک ہلال بن امیہ کا جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں لعان سے قبل توبہ کا ذکر ہے۔ اور دوسرا عویمر عجلانی کا‘ اس میں لعان کے بعد توبہ کا ذکر ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ دونو ں طرح صحیح ہے۔ مطالبہ پہلے بھی کیا جاسکتا ہے اور بعد میں بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں یہی موقف اپنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري:۹/۴۵۸) (2) ”میرا مال“ اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ نکاح عورت کے جرم کی وجہ سے ختم ہورہا ہے‘ لہٰذا مجھے مہر واپس ملنا چاہیے۔ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے سچ یا جھوٹ کا یقین نہیں۔ ممکن ہے تو سچا ہو اور ممکن ہے وہ بے گناہ ہو‘ اس لیے مہر واپس نہیں مل سکتا۔ اگر تم سچے بھی ہو تب بھی تم نے اس سے بہت فائدہ اٹھالیا ہے‘ لہٰذا مہر کی واپسی کا مطالبہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ (3) عربی متن میں ’’قَاَلَ أَیُّوْبُ‘‘ کا ترجمہ سلاست کے پیش نظر نہیں کیا گیا۔ اس کا مفہوم اس طرح سمجھیے کہ یہ روایت سعید بن جبیر سے ایوب سختیانی اور عمروبن دینار آدمی کا اپنے مال کے بارے میں سوال اور رسول اللہﷺ کا جواب بھی ِذکر کرتے ہیں۔ ایوب یہ حصہ محفوظ نہ رکھ سکے۔ عمروبن دینار کی موجودگی میں ایوب نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت عمرو نے یہ کہا تھا کہ اس حدیث کی کچھ حصہ آپ بیان نہیں کررہے۔ اور پھر وہ حصہ بیان کیا۔ عمرو کی روایت اگلے باب میں آرہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجاه؛ وابن الجارود) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا سفيان بن عيينة قال: سمع عمرو سعيدَ
ابن جبير يقول: سمعت ابن عمر يقول...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في مسند أحمد (2/11) ... إسناداً ومتناً.
وكذلك هو في مسند الحميدي (671)
(7/28)
وأخرجه البخاري (9/377 و 409) ، ومسلم (4/207) ، والنسائي
(2/106) ، وابن الجارود (753) ، والبيهقي (7/401) من طرق أخرى عن ابن
عيينة...
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3477
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3475
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3505
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہا: ایک آدمی اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے (اور ان میں لعان ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟) انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے بنو عجلان کے لعان کرنے والے خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔ اور آپ نے (بعد میں) فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرتا ہے؟“ آپ نے تین دفعہ فرمایا: انہوں نے انکار کیا تو آپ نے ان میں جدائی ڈال دی۔ وہ آدمی کہنے لگا: میرا مال؟ آپ نے فرمایا: ”تجھے کوئی مال نہیں ملے گا۔ اگر تو سچا ہے تو تو نے اس سے جماع وغیرہ بھی کیے ہیں۔ اور اگر تو جھوٹا ہے تو پھر تو تجھے مال مل ہی نہیں سکتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لعان کے بعد ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے سمجھا ہے لیکن ایک حدیث میں صراحت ہے کہ آپ نے لعان سے قبل ان سے توبہ کا مطالبہ کیا تھا۔ تو ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے: ایک ہلال بن امیہ کا جو عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں لعان سے قبل توبہ کا ذکر ہے۔ اور دوسرا عویمر عجلانی کا‘ اس میں لعان کے بعد توبہ کا ذکر ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ دونو ں طرح صحیح ہے۔ مطالبہ پہلے بھی کیا جاسکتا ہے اور بعد میں بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں یہی موقف اپنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري:۹/۴۵۸) (2) ”میرا مال“ اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ نکاح عورت کے جرم کی وجہ سے ختم ہورہا ہے‘ لہٰذا مجھے مہر واپس ملنا چاہیے۔ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے سچ یا جھوٹ کا یقین نہیں۔ ممکن ہے تو سچا ہو اور ممکن ہے وہ بے گناہ ہو‘ اس لیے مہر واپس نہیں مل سکتا۔ اگر تم سچے بھی ہو تب بھی تم نے اس سے بہت فائدہ اٹھالیا ہے‘ لہٰذا مہر کی واپسی کا مطالبہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ (3) عربی متن میں ’’قَاَلَ أَیُّوْبُ‘‘ کا ترجمہ سلاست کے پیش نظر نہیں کیا گیا۔ اس کا مفہوم اس طرح سمجھیے کہ یہ روایت سعید بن جبیر سے ایوب سختیانی اور عمروبن دینار آدمی کا اپنے مال کے بارے میں سوال اور رسول اللہﷺ کا جواب بھی ِذکر کرتے ہیں۔ ایوب یہ حصہ محفوظ نہ رکھ سکے۔ عمروبن دینار کی موجودگی میں ایوب نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت عمرو نے یہ کہا تھا کہ اس حدیث کی کچھ حصہ آپ بیان نہیں کررہے۔ اور پھر وہ حصہ بیان کیا۔ عمرو کی روایت اگلے باب میں آرہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر ؓ سے کہا: کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے“، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے ؎) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کر دی۔ (ایوب کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے کہا: اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے؟ کہتے ہیں: اس شخص نے کہا: میرے مال کا کیا ہو گا (ملے گا یا نہی)؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کر چکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لیے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ayyub, that Sa'eed bin Jubair said: "I said to Ibn 'Umar: 'A man accused his wife.' He said: 'The Messenger of Allah separated the couple from Banu 'Ajlan and said: Allah knows that one of you is lying, so will either of you repent? He said that to them three times and they did not respond, then he separated them.'" (One of the narrators) Ayyub said: "Amr bin Dinar said: 'In this Hadith there is something that I think you are not narrating.' He said: 'The man said: My wealth. He said: You are not entitled to any wealth. If you are telling the truth, you have consummated the marriage with her, and if you are lying then you are even less entitled to it.