باب: اگر بیوی کا خاوند یا لونڈی کا مالک بچے کی نفی نہ کرے تو بچہ (قانونی طور پر) اسی کا ہوگا
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Attributing The Child To The Bed If The Owner Of The Bed Does Not Disown Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3484.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ایک لڑکے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ حضرت سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابو وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ آپ ذرا اس کی شکل وشباہت پر غور فرمائیں۔ عبد بن زمعہ کہنے لگا: یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے ہاں اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی شکل وشباہت کو دیکھا تو وہ واضح طور پر عتبہ کے مشابہ تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ”اے عبد! یہ تیرا بھائی ہی ہے کیونکہ بچہ گھر والے کا ہوتا ہے اور زانی کو تو پتھر پڑتے ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تو اس سے پردہ کیا کر۔“ اس کے بعد اس نے کبھی حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) جس بچے کے بارے میں جھگڑا تھا‘ وہ زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ حقیقتاً وہ عتبہ کے ناجائز نطفے سے تھا۔ جاہلیت میں لونڈیوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو دعویٰ کرنے والے زانی کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دعویٰ اسی جاہلی رواج کی بنا پر تھا لیکن اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم کیا اب زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوگا۔ عورت کا خاوند یا مالک انکار نہ کرے تو اسی کا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ انکار کردے تو جننے والی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ بھی زمعہ کی بیٹی تھیں۔ اس ناتے وہ بچہ ان کا بھی بھائی بنتا تھا مگر چونکہ حقیقتاً وہ عتبہ کے نطفے سے تھا‘ لہٰـذا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اس سے پردے کا حکم دیا کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہ تھا۔ یہ جھگڑا فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا۔ (3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قیافہ شناسی وہاں معتبر ہوگی جہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہاں مشابہت کا اعتبار نہیں کیا اور نہ لعان میں کیا ہے کیونکہ یہاں اس کے معارض اس سے قوی دلائل موجود ہیں‘ یعنی یہ شرعی اصول کہ بچہ بستر والے کی طرف منسوب ہوگا‘ اور لعان کی مشروعیت جبکہ زید بن حارثہ والے واقعے میں اس کا اعتبار کیا ہے کیونکہ وہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل موجود نہیں۔ واللہ أعلم۔ حاکم یا جج کا فیصلہ کیس کی حقیقت اور اصلیت کو نہیں بدلے گا اگرچہ وہ فیصلہ ظاہری دلائل کی روشنی میں کرے گا جیسے کوئی جھوٹی گواہی دے اور جج اس کے مطابق فیصلہ کردے تو جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ ہوا ہے اس کے لیے وہ چیز شرعاً حلال نہیں ہوگی۔ آپ نے اس بچے کو عبد بن زمعہ کا بھائی قراردیا‘ شرعی اصول کی بنا پر‘ لیکن سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا‘ اس لیے کہ حقیقتاً وہ ان کا بھائی نہیں تھا کیونکہ اس کی عتبہ سے واضح مشابہت موجود تھی۔ اس سلسلے میں نبیﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے کہ اگر میں ظاہری دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کسی حق میں کردوں تو اس سے وہ چیز اس کے لیے واقعتا حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ ایسے سمجھے کہ میں اسے جہنم کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اسے وہ نہیں لینا چاہیے۔ (صحیح البخاري‘ الشھادات‘ حدیث: ۲۶۸۰‘ وصحیح مسلم‘ الأقضیة‘ حدیث: ۱۷۱۳)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3486
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3484
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3514
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ایک لڑکے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ حضرت سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابو وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ آپ ذرا اس کی شکل وشباہت پر غور فرمائیں۔ عبد بن زمعہ کہنے لگا: یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے ہاں اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی شکل وشباہت کو دیکھا تو وہ واضح طور پر عتبہ کے مشابہ تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ”اے عبد! یہ تیرا بھائی ہی ہے کیونکہ بچہ گھر والے کا ہوتا ہے اور زانی کو تو پتھر پڑتے ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تو اس سے پردہ کیا کر۔“ اس کے بعد اس نے کبھی حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس بچے کے بارے میں جھگڑا تھا‘ وہ زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ حقیقتاً وہ عتبہ کے ناجائز نطفے سے تھا۔ جاہلیت میں لونڈیوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو دعویٰ کرنے والے زانی کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دعویٰ اسی جاہلی رواج کی بنا پر تھا لیکن اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم کیا اب زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوگا۔ عورت کا خاوند یا مالک انکار نہ کرے تو اسی کا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ انکار کردے تو جننے والی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ بھی زمعہ کی بیٹی تھیں۔ اس ناتے وہ بچہ ان کا بھی بھائی بنتا تھا مگر چونکہ حقیقتاً وہ عتبہ کے نطفے سے تھا‘ لہٰـذا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اس سے پردے کا حکم دیا کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہ تھا۔ یہ جھگڑا فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا۔ (3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قیافہ شناسی وہاں معتبر ہوگی جہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہاں مشابہت کا اعتبار نہیں کیا اور نہ لعان میں کیا ہے کیونکہ یہاں اس کے معارض اس سے قوی دلائل موجود ہیں‘ یعنی یہ شرعی اصول کہ بچہ بستر والے کی طرف منسوب ہوگا‘ اور لعان کی مشروعیت جبکہ زید بن حارثہ والے واقعے میں اس کا اعتبار کیا ہے کیونکہ وہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل موجود نہیں۔ واللہ أعلم۔ حاکم یا جج کا فیصلہ کیس کی حقیقت اور اصلیت کو نہیں بدلے گا اگرچہ وہ فیصلہ ظاہری دلائل کی روشنی میں کرے گا جیسے کوئی جھوٹی گواہی دے اور جج اس کے مطابق فیصلہ کردے تو جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ ہوا ہے اس کے لیے وہ چیز شرعاً حلال نہیں ہوگی۔ آپ نے اس بچے کو عبد بن زمعہ کا بھائی قراردیا‘ شرعی اصول کی بنا پر‘ لیکن سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا‘ اس لیے کہ حقیقتاً وہ ان کا بھائی نہیں تھا کیونکہ اس کی عتبہ سے واضح مشابہت موجود تھی۔ اس سلسلے میں نبیﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے کہ اگر میں ظاہری دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کسی حق میں کردوں تو اس سے وہ چیز اس کے لیے واقعتا حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ ایسے سمجھے کہ میں اسے جہنم کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اسے وہ نہیں لینا چاہیے۔ (صحیح البخاري‘ الشھادات‘ حدیث: ۲۶۸۰‘ وصحیح مسلم‘ الأقضیة‘ حدیث: ۱۷۱۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ ؓ کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سر پرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو۱؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ ؓ کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "Sa'd bin Abi Waqqas and 'Abd bin Zam'ah disputed over a boy. Sa'd said: 'O Messenger of Allah! This is the son of my brother 'Utbah bin Abi Waqqas, who made me promise to look after him because he is his son. Look at whom he resembles.' 'Abd bin Zam'ah said: 'He is my brother who was born on my father's bed to his slave woman.' The Messenger of Allah looked to determine at whom he resembled, and saw that he resembled 'Utbah. He said: 'He is for you, O 'Abd! The child is the bed's and for the fornicator is the stone. Veil yourself from him, O Sawdah bint Zam'ah.' And he never saw Sawdah again.