باب: جب بچے کے بارے میں تنازع ہوجائے تو قرعہ ڈالا جاسکتا ہے نیز زید بن ارقم کی حدیث میں شعبی پر اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Drawing Lots For A Child If Several Men Dispute Over Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3492.
حضرت ابوخلیل یا ابن ابو خلیل سے منقول ہے کہ تین آدمی ایک عورت کے طہر میں شریک ہوئے۔ باقی حدیث اسی طرح ذکر کی‘ نیز سلمہ بن کہیل نے (اپنی روایت میں) زید بن ارقم ؓ کا ذکر نہیں کیا اور نہ روایت کو مرفوع ہی بیان کیا ہے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) فرماتے ہیں کہ یہی (سلمہ بن کہیل کی روایت) درست ہے۔ واللہ سبحانه وتعالیٰ أعلم۔
تشریح:
اس روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اور نہ اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق یہی درست ہے کیونکہ سلمہ بن کہیل باقی (تینوں) سے اوثق ہے‘ لہٰذا ان (تینوں) کی روایت درست نہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع اور متصل ہوتی ہے۔ اوثق راوی کی مخالفت کا اعتبار تب ہوتا ہے جب کوئی وجہ اختلاف بھی ہو لیکن یہاں کوئی وجہ اختلاف سمجھ میں نہیں آتی‘ اس لیے صالح ہمدانی کی روایت بھی صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3494
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3492
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3522
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوخلیل یا ابن ابو خلیل سے منقول ہے کہ تین آدمی ایک عورت کے طہر میں شریک ہوئے۔ باقی حدیث اسی طرح ذکر کی‘ نیز سلمہ بن کہیل نے (اپنی روایت میں) زید بن ارقم ؓ کا ذکر نہیں کیا اور نہ روایت کو مرفوع ہی بیان کیا ہے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) فرماتے ہیں کہ یہی (سلمہ بن کہیل کی روایت) درست ہے۔ واللہ سبحانه وتعالیٰ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اور نہ اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق یہی درست ہے کیونکہ سلمہ بن کہیل باقی (تینوں) سے اوثق ہے‘ لہٰذا ان (تینوں) کی روایت درست نہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع اور متصل ہوتی ہے۔ اوثق راوی کی مخالفت کا اعتبار تب ہوتا ہے جب کوئی وجہ اختلاف بھی ہو لیکن یہاں کوئی وجہ اختلاف سمجھ میں نہیں آتی‘ اس لیے صالح ہمدانی کی روایت بھی صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابوالخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے، واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salamah bin Kuhail said: "I heard Ash-Sha'bi narrating from Abu Al-Khalil or Ibn Abi Al-Khalil that three men had intercourse (with the same woman) during a single menstrual cycle;" and he mentioned something similar, but he did not mention Zaid bin Arqam (RA) or attribute anything to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم).