باب: خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو بچے کو اختیار دیا جائے (وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: When One Parent Becomes Muslim, And The Child Is Given The Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3495.
حضرت عبدالحمید بن سلمہ انصاری کے دادا محترم سے راویت ہے کہ میں مسلمان ہوگیا لیکن میری بیوی نے اسلام لانے سے انکار کردیا۔ ہمارا ایک چھوٹا بچہ آیا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا۔ نبی ﷺ نے باپ کو ایک طرف بٹھا لیا اور ماں کو دوسری طرف‘ پھر آپ نے بچے کو اختیار دیا کہ اور دعا فرمائی: ”یا اللہ! اسے ہدایت دے۔“ چنانچہ وہ بچہ (اللہ کی توفیق سے) باپ کی طرف چلا گیا۔
تشریح:
خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہو تو اسے کس کی تحویل میں دیا جائے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصحاب الرائے کے نزدیک کافر کے لیے حق حضانت (پرورش) ثابت ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے یہ ولایت ہے۔ اور جب نکاح اور مال میں کافر کی ولایت ثابت نہیں ہوتی تو حضانت میں تو بالا ولی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا نقصان ان دونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘ اس لیے کہ جب کافر‘ بچے کی پرورش کرے گا تو ظاہر ہے اس کی خواہش ہوگی کہ بچہ میرے دین پر ہو‘ اس لیے ہو اس کی اپنے دین کے مطابق پرورش اور تربیت کرے گا اور اپنے دین کی اسے تعلیم دے گا۔ نتیجتاً بچہ کافر ہوجائے گا کیونکہ بچہ وہی بنتا ہے جس کی اسے تربیت دی جائے۔ فرمان نبوی ہے: ”بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔“ (صحیح البخاري‘ الجنائز‘ حدیث: ۱۳۵۸‘ وصحیح مسلم‘ القدر‘ حدیث: ۲۶۵۸) بعد میں اس کا اسلام کی طرف آنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلا﴾ اس لیے بچے کو مسلمان کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافر کے پاس جانا اللہ کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ نبی ﷺ نے مذکورہ مسئلے میں اختیار کیوں دیا جبکہ ماں کافر تھی؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کو یقین تھا کہ میری دعا قبول ہوجا ئے گی اور بچہ یقینا باپ کے پاس جائے گا‘ اس لیے آپ نے ماں کی دل جوئی کے لیے ایسا کیا۔ اگر اس بات کو درست تسلیم نہ بھی کیا جائے اور مذکورہ صورت میں اختیار ہی کو درست سمجھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اختیار دیا تھا‘ تو بھی کافر کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بچہ اس کی تحویل میں اس شرط پر دیا جائے گا کہ وہ بچے کی تربیت اسلام کے مطابق کرے۔ یہ شرط عائد کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ حدیث میں شرط کی نفی نہیں (اس لیے کہ حدیث میں بچے کے کافر کے پاس جانے کی نوبت نہیں آتی۔) بلکہ شرط دینی مصالح کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کسی آیت یا حدیث کو (نعوذ باللہ) رد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3497
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3495
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3525
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبدالحمید بن سلمہ انصاری کے دادا محترم سے راویت ہے کہ میں مسلمان ہوگیا لیکن میری بیوی نے اسلام لانے سے انکار کردیا۔ ہمارا ایک چھوٹا بچہ آیا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا۔ نبی ﷺ نے باپ کو ایک طرف بٹھا لیا اور ماں کو دوسری طرف‘ پھر آپ نے بچے کو اختیار دیا کہ اور دعا فرمائی: ”یا اللہ! اسے ہدایت دے۔“ چنانچہ وہ بچہ (اللہ کی توفیق سے) باپ کی طرف چلا گیا۔
حدیث حاشیہ:
خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہو تو اسے کس کی تحویل میں دیا جائے؟ اس میں اختلاف ہے۔ اصحاب الرائے کے نزدیک کافر کے لیے حق حضانت (پرورش) ثابت ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے یہ ولایت ہے۔ اور جب نکاح اور مال میں کافر کی ولایت ثابت نہیں ہوتی تو حضانت میں تو بالا ولی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کا نقصان ان دونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘ اس لیے کہ جب کافر‘ بچے کی پرورش کرے گا تو ظاہر ہے اس کی خواہش ہوگی کہ بچہ میرے دین پر ہو‘ اس لیے ہو اس کی اپنے دین کے مطابق پرورش اور تربیت کرے گا اور اپنے دین کی اسے تعلیم دے گا۔ نتیجتاً بچہ کافر ہوجائے گا کیونکہ بچہ وہی بنتا ہے جس کی اسے تربیت دی جائے۔ فرمان نبوی ہے: ”بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔“ (صحیح البخاري‘ الجنائز‘ حدیث: ۱۳۵۸‘ وصحیح مسلم‘ القدر‘ حدیث: ۲۶۵۸) بعد میں اس کا اسلام کی طرف آنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ بچپن کا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلا﴾ اس لیے بچے کو مسلمان کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا کافر کے پاس جانا اللہ کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے ہدایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ نبی ﷺ نے مذکورہ مسئلے میں اختیار کیوں دیا جبکہ ماں کافر تھی؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کو یقین تھا کہ میری دعا قبول ہوجا ئے گی اور بچہ یقینا باپ کے پاس جائے گا‘ اس لیے آپ نے ماں کی دل جوئی کے لیے ایسا کیا۔ اگر اس بات کو درست تسلیم نہ بھی کیا جائے اور مذکورہ صورت میں اختیار ہی کو درست سمجھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اختیار دیا تھا‘ تو بھی کافر کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بچہ اس کی تحویل میں اس شرط پر دیا جائے گا کہ وہ بچے کی تربیت اسلام کے مطابق کرے۔ یہ شرط عائد کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ حدیث میں شرط کی نفی نہیں (اس لیے کہ حدیث میں بچے کے کافر کے پاس جانے کی نوبت نہیں آتی۔) بلکہ شرط دینی مصالح کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کسی آیت یا حدیث کو (نعوذ باللہ) رد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہو جا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہدایت دے تو وہ باپ کی طرف ہو لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdul-Hamid bin Salamah Al-Ansari, from his father, from his grandfather, that he became Muslim but his wife refused to become Muslim. A young son of theirs, who had not yet reached puberty, came, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) seated the father on one side and the mother on the other side, and he gave him the choice. He said: "O Allah, guide him," and (the child) went to his father.