Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3510.
حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو اور وہ حاملہ ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ بعد والی عدت پوری کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: جب وہ بچہ جن دے تو اس کی عدت پوری ہوگئی۔ ابوسلمہ حضرت ابوسلمہؓ کے پاس گئے اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات سے نصف ماہ بعد بچہ جن دیا تو دو آدمیوں نے اسے شادی کا پیغام بھیجا۔ ان میں سے ایک جوان تھا‘ دوسرا کچھ بوڑھا۔ وہ جوان کی طرف مائل ہوئی تو وہ بوڑھا کہنے لگا: تیری تو ابھی عدت ہی پوری نہیں ہوئی۔ اصل بات یہ تھی کہ عورت کے گھر والے غائب تھے۔ اسے امید تھی کہ اگر گھر والے آگئے تو شادی کے معاملے میں اسے ترجیح دیں گے لیکن وہ عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا: ”تیری عدت پوری ہوچکی ہے جس سے پسند کرے نکاح کرے۔“
تشریح:
کسی فتوے اور فیصلے میں ذاتی میلان کی بنا پر جانبداری سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر جانبداری کا خدشہ ہو تو قاضی اس کیس کی سماعت نہ کرے بلکہ کوئی دوسرا جج جو غیر جانبداری سے فیصلہ کرسکتا ہو‘ اس کیس کی سماعت کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3512
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3510
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3540
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو اور وہ حاملہ ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ بعد والی عدت پوری کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: جب وہ بچہ جن دے تو اس کی عدت پوری ہوگئی۔ ابوسلمہ حضرت ابوسلمہؓ کے پاس گئے اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات سے نصف ماہ بعد بچہ جن دیا تو دو آدمیوں نے اسے شادی کا پیغام بھیجا۔ ان میں سے ایک جوان تھا‘ دوسرا کچھ بوڑھا۔ وہ جوان کی طرف مائل ہوئی تو وہ بوڑھا کہنے لگا: تیری تو ابھی عدت ہی پوری نہیں ہوئی۔ اصل بات یہ تھی کہ عورت کے گھر والے غائب تھے۔ اسے امید تھی کہ اگر گھر والے آگئے تو شادی کے معاملے میں اسے ترجیح دیں گے لیکن وہ عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا: ”تیری عدت پوری ہوچکی ہے جس سے پسند کرے نکاح کرے۔“
حدیث حاشیہ:
کسی فتوے اور فیصلے میں ذاتی میلان کی بنا پر جانبداری سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر جانبداری کا خدشہ ہو تو قاضی اس کیس کی سماعت نہ کرے بلکہ کوئی دوسرا جج جو غیر جانبداری سے فیصلہ کرسکتا ہو‘ اس کیس کی سماعت کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ ؓ سے اس عورت (کی عدت) کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور وہ (انتقال کے وقت) حاملہ رہی ہو۔ ابن عباس ؓ نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو آخر میں ہو یعنی لمبی ہو اور دوسری کے مقابل میں بعد میں پوری ہوتی ہو،۱؎ اور ابوہریرہ ؓ نے کہا: جس وقت عورت بچہ جنے اسی وقت اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ (یہ اختلاف سن کر) ابوسلمہ ام سلمہ ؓ کے پاس گئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ ؓ نے اپنے شوہر کے انتقال کے پندرہ دن بعد بچہ جنا پھر دو آدمیوں نے اسے شادی کرنے کا پیغام دیا، ان دونوں میں سے ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر کا، وہ جوان کی طرف مائل ہوئی اور اسے شادی کے لیے پسند کر لیا۔ ادھیڑ عمر والے نے اس سے کہا: تو تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو (شادی کرنے کیسے جا رہی ہو)، اس کے گھر والے غیر موجود تھے ادھیڑ عمر والے نے امید لگائی (کہ میرے ایسا کہنے سے شادی ابھی نہ ہو گی اور) جب لڑکی کے گھر والے آ جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کا اس کے ساتھ رشتہ کر دینے کو ترجیح دیں (اور سبیعہ کو اس کے ساتھ شادی کر لینے پر راضی کر لیں)۔ لیکن وہ تو (سیدھے) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم (بچہ جن کر) حلال ہو چکی ہو، تمہارا دل جس سے چاہے اس سے شادی کر لو۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : آیت : «وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا»(البقرة: 234) کے مطابق ایک عدت چار مہینہ دس دن کی ہے اور دوسری عدت آیت: «وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ»(الطلاق: 4) کے مطابق وضع حمل ہے۔ ۲؎ : گویا ابوہریرہ رضی الله عنہ کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں درست تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Salamah said: "Ibn 'Abbas and Abu Hurairah (RA) were asked about the woman whose husband dies when she is pregnant. Ibn 'Abbas said: '(She should wait) for the longer of the two periods.' Abu Hurairah said: 'When she gives birth it becomes permissible for her to marry.' Abu Salamah went to Umm Salamah (RA) and asked her about that, and she said: 'Subai'ah Al-Aslamiyyah gave birth half a month after her husband died, and two men proposed to her. One was young and one was old, and she was inclined toward the young one. So the old one said: It is not permissible for you to marry. Her family was not there, and he hoped that if he went to her family they would marry her to him. She went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: It is permissible for you to marry, so marry whomever you want.