باب: جس عورت کا خاوند ہو جائے‘ اسے رخصت ہے کہ جہاں چاہے عدت گزارے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Concession Allowing A Woman Whose Husband Has Died To Observe Her 'Iddah Wherever She Wants)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3531.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس آیت نے عورت کے لیے خاوند کے گھر عدت گزارنے کو منسوخ کردیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارسکتی ہے۔ اس آیت سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿غَيْرَ إِخْرَاجٍ﴾‘ یعنی عورتوں کو دورانِ عدت میں گھروں سے نکالا نہ جائے‘ وہ خود علی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
تشریح:
دراصل قرآن مجید میں دوآیات ہیں۔ دونوں سورۂ بقرہ میں ہیں۔ ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: ”جن عورتوں کے خاوند فوت ہوجائیں‘ وہ چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔“ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے: ”خاوند فوت ہونے سے پہلے اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک گھروں سے نکالا نہ جائے‘ لبتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو ان کی مرضی۔“ پہلی آیت میں ”روکے رکھیں“ کے الفاظ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ خاوند کے گھر ہی میں رہیں۔ علاوہ ازیں یہی اس عورت کی عدت بھی ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت ناسخ ہے۔ اور اس کے بعد آنے والی آیت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مدارِ استدلال ہے‘ منسوخ ہے۔ اس سے کسی قسم کا استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ بہر حال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے استنباط کے مطابق دوسری آیت میں ان عورتوں کو گھر سے چلے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر کثیر صحابہ اور جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ گھروں سے جانے کی رخصت چار ماہ دس دن کے دوران میں نہیں بلکہ سال سے باقی مادہ مدت‘ یعنی سات ماہ بیس دن کے دوران میں ہے جو بطور وصیت ان کے لیے رعایت رکھی گئی تھی۔ اور وہ بھی اب منسوخ ہے۔ اب بھی ان کے لیے اصل عدت گزارنا خاوند کے گھر ہی میں واجب ہے۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے‘ اس لیے حدیث‘ جو قرآن کی صحیح تفسیر اور بذات خود ایک اصل ہے‘ کی رو سے جمہور اہل علم کا موقف ہی صحیح قرارپاتا ہے۔ (مزید دیکھیے‘ حدیث: ۳۵۵۸)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3565
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3531
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3473
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3531
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3533
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3531
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3561
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس آیت نے عورت کے لیے خاوند کے گھر عدت گزارنے کو منسوخ کردیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارسکتی ہے۔ اس آیت سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿غَيْرَ إِخْرَاجٍ﴾‘ یعنی عورتوں کو دورانِ عدت میں گھروں سے نکالا نہ جائے‘ وہ خود علی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
دراصل قرآن مجید میں دوآیات ہیں۔ دونوں سورۂ بقرہ میں ہیں۔ ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: ”جن عورتوں کے خاوند فوت ہوجائیں‘ وہ چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔“ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے: ”خاوند فوت ہونے سے پہلے اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک گھروں سے نکالا نہ جائے‘ لبتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو ان کی مرضی۔“ پہلی آیت میں ”روکے رکھیں“ کے الفاظ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ خاوند کے گھر ہی میں رہیں۔ علاوہ ازیں یہی اس عورت کی عدت بھی ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت ناسخ ہے۔ اور اس کے بعد آنے والی آیت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مدارِ استدلال ہے‘ منسوخ ہے۔ اس سے کسی قسم کا استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ بہر حال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے استنباط کے مطابق دوسری آیت میں ان عورتوں کو گھر سے چلے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر کثیر صحابہ اور جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ گھروں سے جانے کی رخصت چار ماہ دس دن کے دوران میں نہیں بلکہ سال سے باقی مادہ مدت‘ یعنی سات ماہ بیس دن کے دوران میں ہے جو بطور وصیت ان کے لیے رعایت رکھی گئی تھی۔ اور وہ بھی اب منسوخ ہے۔ اب بھی ان کے لیے اصل عدت گزارنا خاوند کے گھر ہی میں واجب ہے۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے‘ اس لیے حدیث‘ جو قرآن کی صحیح تفسیر اور بذات خود ایک اصل ہے‘ کی رو سے جمہور اہل علم کا موقف ہی صحیح قرارپاتا ہے۔ (مزید دیکھیے‘ حدیث: ۳۵۵۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آیت «مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ» ... «الی آخرہ» جس میں متوفیٰ عنہا زوجہا کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے (اور اس کا ناسخ اللہ تعالیٰ کا یہ قول: «فإن خرجن فلا جناح عليكم في فعلن في أنفسهن من معروف» (البقرة : 240) ہے، اب عورت جہاں چاہے اور جہاں مناسب سمجھے وہاں عدت کے دن گزار سکتی ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سلسلہ میں فریعہ بنت مالک کی حدیث سے استدلال کرنے والوں کی دلیل مضبوط ہے، کیونکہ اس حدیث کا معارضہ کرنے والے کوئی ٹھوس اور مضبوط دلیل نہ پیش کر سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that this Verse abrogated the woman's 'Iddah among her family, and she may observe her 'Iddah wherever she wants. That is the saying of Allah, the Mighty and Sublime: without turning them out.