باب: جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ اس کی عدت خبر ملنے کے دن سے شروع ہوگی
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Woman Whose Husband Has Died, Starts From The Day The News Reached Her)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3532.
حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ہمشیرہ حضرت فریعہ بنت مالکؓ فرماتی ہیں کہ میرا خاوند قدوم جگہ میں قتل ہوگیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ ہمارا گھر دوردراز جگہ میں ہے (مجھے میکے منتقل ہونے کی اجازت دی جائے)۔ آپ نے اجازت دے دی‘ پھر بلایا اور فرمایا: ”اپنے گھر ہی میں چار ماہ دس دن ٹھہر حتیٰ کہ مقررہ عدت پوری ہوجائے۔“
تشریح:
اس حدیث میں باب پر دلالت کرنے والے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عدت وفات سے شروع ہوگی نہ کہ خبر ملنے سے۔ عقلاً ونقلاً یہی بات صحیح ہے۔ قرآن وحدیث میں وفات کا ذکر ہے نہ کہ خبر ملنے کا۔ ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ ائمہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد‘ امام اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرائے وغیرہ کا یہی موقف ہے۔ دوسرا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے‘ نیز حسن بصری‘ قتادہ اور عطاء خراسانی وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے جو کہ درست نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3534
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3532
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3562
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ہمشیرہ حضرت فریعہ بنت مالکؓ فرماتی ہیں کہ میرا خاوند قدوم جگہ میں قتل ہوگیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ ہمارا گھر دوردراز جگہ میں ہے (مجھے میکے منتقل ہونے کی اجازت دی جائے)۔ آپ نے اجازت دے دی‘ پھر بلایا اور فرمایا: ”اپنے گھر ہی میں چار ماہ دس دن ٹھہر حتیٰ کہ مقررہ عدت پوری ہوجائے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں باب پر دلالت کرنے والے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عدت وفات سے شروع ہوگی نہ کہ خبر ملنے سے۔ عقلاً ونقلاً یہی بات صحیح ہے۔ قرآن وحدیث میں وفات کا ذکر ہے نہ کہ خبر ملنے کا۔ ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ ائمہ میں سے امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد‘ امام اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرائے وغیرہ کا یہی موقف ہے۔ دوسرا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے‘ نیز حسن بصری‘ قتادہ اور عطاء خراسانی وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے جو کہ درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر کا قدوم (بستی) میں انتقال ہو گیا تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ کو بتایا کہ میرا گھر (بستی سے) دور (الگ تھلگ) ہے (تو میں اپنے ماں باپ کے گھر عدت گزار لوں؟) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ پھر انہیں بلایا اور فرمایا: ”اپنے گھر ہی میں چار مہینے دس دن رہو یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Furai'ah bint Malik, the sister of Abu Sa'eed Al-Khudri, said: "My husband died in Al-Qadum, so I went to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and told him that our house was remote." He gave her permission then he called her back and said: "Stay in your house for four months and ten days, until the term prescribed is fulfilled.