Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Prohibition Of Kohl For A Woman In Mourning)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3539.
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا اور اسے آنکھوں کی تکلیف تھی۔ آپ نے فرمایا: ”جاہلیت کے دور میں ایسی عورتوں کو ایک سال تک سوگ کرنا پڑتا تھا‘ پھر سال کے بعد وہ مینگنی پھینکتی تھی۔ اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے۔“
تشریح:
(1) چونکہ آنکھوں کی تکلیف کا علاج سرمہ سوگ کے سراسر خلاف ہے‘ اس لیے اس دوران میں سرمہ لگانا ممنوع ہے۔ (2) ”صرف چار ماہ دس دن“ طلاق کی عدت تین حیض ہے مگر وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے کیونکہ اس میں سوگ کا اضافہ بھی ہے‘ نیز مدت کی زیادتی سے استبرائے رحم کا یقین حاصل ہوجائے گا کیونکہ چار ماہ کے بعد لازماً بچہ حرکت شروع کردیتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3543
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3541
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3569
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا اور اسے آنکھوں کی تکلیف تھی۔ آپ نے فرمایا: ”جاہلیت کے دور میں ایسی عورتوں کو ایک سال تک سوگ کرنا پڑتا تھا‘ پھر سال کے بعد وہ مینگنی پھینکتی تھی۔ اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ آنکھوں کی تکلیف کا علاج سرمہ سوگ کے سراسر خلاف ہے‘ اس لیے اس دوران میں سرمہ لگانا ممنوع ہے۔ (2) ”صرف چار ماہ دس دن“ طلاق کی عدت تین حیض ہے مگر وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے کیونکہ اس میں سوگ کا اضافہ بھی ہے‘ نیز مدت کی زیادتی سے استبرائے رحم کا یقین حاصل ہوجائے گا کیونکہ چار ماہ کے بعد لازماً بچہ حرکت شروع کردیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے اپنی بیٹی کا ذکر کر کے جس کا شوہر مر گیا تھا اور اس کی آنکھیں دکھتی تھیں (اس کے علاج و معالجے کے لیے) مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا: ”تمہاری ہر عورت (جس کا شوہر مر جاتا تھا) پورے سال سوگ مناتی تھی (اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتی تھی) اور پھر سال پورا ہونے پر مینگنیاں پھینکتی تھی اور اب یہ (اسلام میں گھٹ کے) چار مہینے دس دن ہیں (تو تمہیں آنکھ کی تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی؟)۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Zainab bint Abi Salamah, from her mother, that a woman came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and asked him about her daughter whose husband had died and she was ill. He said: "One of you used to mourn for a year, then throw a piece of dung when a year had passed. Rather it (the mourning period) is four months and ten days.