Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Abrogation Of The Permission To Take Back One's Wife After The Three Divorces)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3554.
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے فرامین ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ۔۔۔۔۔أَوْ مِثْلِهَا﴾ ”جو آیت ہم منسوخ کردیں یا بھلا دیں‘ ہم اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی آیت اور لے آتے ہیں“ اور ﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً۔۔۔۔۔ بِمَا يُنَزِّلُ﴾ ”جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی اور آیت لے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی اتاری ہوئی آیتوں کو خوب جانتا ہے…الخ“ اور﴿يَمْحُو اللَّهُ۔۔۔۔۔۔أُمُّ الْكِتَابِ﴾ ”اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ہی اصل کتاب ہے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ قرآن مجید میں سب سے پہلے قبلہ منسوخ ہوا اسی طرح فرمایا: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ ۔۔۔۔إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا﴾ ”طلاق شدہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روک رکھیں اور ان کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا فرمائی ہے۔ (آخر آیت تک) پہلے یہ دستور تھا کہ کوئی آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو وہ اس سے رجوع کا حق رکھتا تھا‘ چاہے تین طلاقیں ہی دے چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس دستور کو منسوخ فرما دیا اور فرمایا: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ۔۔۔۔۔أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ ”رجعی طلاق دو دفعہ ہی ہے۔ رکھنا ہے تو اچھے طریقے سے رکھے ورنہ اچھے طریقے سے چھوڑ دے۔“
تشریح:
طلاق سے رجوع صرف دو دفعہ ہی ممکن ہے‘ تیسری دفعہ طلاق دینے سے عورت حرام ہوجاتی ہے۔ نہ رجوع نہ نکاح۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔ جاہلیت کے رواج میں عورتو ں کے لیے بڑی مصیبت تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3558
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3556
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3584
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے فرامین ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ۔۔۔۔۔أَوْ مِثْلِهَا﴾ ”جو آیت ہم منسوخ کردیں یا بھلا دیں‘ ہم اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی آیت اور لے آتے ہیں“ اور ﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً۔۔۔۔۔ بِمَا يُنَزِّلُ﴾ ”جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی اور آیت لے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی اتاری ہوئی آیتوں کو خوب جانتا ہے…الخ“ اور﴿يَمْحُو اللَّهُ۔۔۔۔۔۔أُمُّ الْكِتَابِ﴾ ”اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ہی اصل کتاب ہے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ قرآن مجید میں سب سے پہلے قبلہ منسوخ ہوا اسی طرح فرمایا: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ ۔۔۔۔إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا﴾ ”طلاق شدہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روک رکھیں اور ان کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا فرمائی ہے۔ (آخر آیت تک) پہلے یہ دستور تھا کہ کوئی آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو وہ اس سے رجوع کا حق رکھتا تھا‘ چاہے تین طلاقیں ہی دے چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس دستور کو منسوخ فرما دیا اور فرمایا: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ۔۔۔۔۔أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ ”رجعی طلاق دو دفعہ ہی ہے۔ رکھنا ہے تو اچھے طریقے سے رکھے ورنہ اچھے طریقے سے چھوڑ دے۔“
حدیث حاشیہ:
طلاق سے رجوع صرف دو دفعہ ہی ممکن ہے‘ تیسری دفعہ طلاق دینے سے عورت حرام ہوجاتی ہے۔ نہ رجوع نہ نکاح۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔ جاہلیت کے رواج میں عورتو ں کے لیے بڑی مصیبت تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ قرآن پاک کی آیت: «مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا» یعنی ”ہم جو کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ہم اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسی کوئی اور آیت لے آتے ہیں۔“ (البقرہ: ۱۰۶) اور دوسری آیت: «وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ» یعنی ”جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کیا چیز اتاری ہے تو وہ کہتے ہیں تو تو گڑھ لاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سمجھتے ہی نہیں ہیں۔“ (النحل: ۱۰۱) اور تیسری آیت: «يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ»”اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ) ہے۔“(الرعد: ۳۹) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: پہلی چیز جو قرآن سے منسوخ ہوئی ہے وہ قبلہ ہے۔ اور عبداللہ بن عباس ؓ آیت: «وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ» سے لے کر«إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا» تک یعنی”اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض کے آ جانے کا انتظار کریں گی اور ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ ان کی بچہ دانیوں میں اللہ نے جو تخلیق کر دی ہو اسے چھپائیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، البتہ ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ انہیں لوٹا لینے کا پورا حق رکھتے ہیں۔“ (البقرہ: ۲۲۸) کی تفسیر میں فرماتے ہیں (پہلے معاملہ یوں تھا ) کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو اسے لوٹا لینے کا بھی پورا پورا حق رکھتا تھا خواہ اس نے اسے تین طلاقیں ہی کیوں نہ دی ہوں، ابن عباس کہتے ہیں: یہ چیز منسوخ ہو گئی کلام پاک کی اس آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ» ”یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روک لینا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔“ (البقرہ: ۲۲۹) سے (یعنی وہ صرف دو طلاق تک رجوع کر سکتا ہے اس سے زائد طلاق دینے پر رجوع کرنا جائز نہیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas, regarding Allah's saying: "Whatever a Verse do We abrogate or cause to be forgotten, We bring a better one or similar to it." and "And when We change a Verse in place of another -and Allah knows best what He sends down" (Al-Nahl 16:101) and "Allah blots out what He wills and confirms (what He wills). And with Him is the Mother of the Book." The first thing that was abrogated in the Qur'an was the Qiblah. And He said: "And divorced women shall wait (as regards their marriage) for three menstrual periods, and it is not lawful for them to conceal what Allah has created in their wombs, if they believe in Allah and the Last Day." "And their husbands have better right to take them back in that period, if they wish for reconciliation." -that is because when a man divorced his wife, he had more right to take her back, even if he had divorced her three times. Then (Allah) abrogated that and said: "The divorce is twice, after that, either you retain her on reasonable terms or release her with kindness.