کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: گھوڑدوڑ پر انعام مقرر کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Horses, Races and Shooting
(Chapter: Awards (For Victory In Competition))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3588.
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ ا س سے کوئی اونٹ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک اعرابی اپنے جوان اونٹ پر آیا اور اس سے مقابلے میں آگے بڑھ گیا۔ یہ بات مسلمانوں کو بہت ناگوار گزری۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے چہروں کے تأثرات دیکھے جبکہ وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! عضباء تو پیچھے رہ گئی! تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے یہ بات لازم قراردے لی ہے کہ دنیا کی جو چیز بھی بلند مرتبہ ہوگی‘ اللہ تعالیٰ اسے (کسی نہ کسی وقت) نیچا دکھائے۔“
تشریح:
(1) عضباء، لغوی لحاظ سے اس کے معنی ”کن کٹی“ ہیں مگر آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی بلکہ اس کا عرفی نام عضباء تھا۔ ممکن ہے کان زیادہ چھوٹے ہوں‘ تشبیہاً عضباء کہہ دیا گیا ہو۔ (2) ”نیچا دکھائے گا“ کیونکہ ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ (الرحمن: ۵۵:۲۶) ”دنیا کی ہرچیز زوال پذیر ہے۔“ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز ہمیشہ عروج کی حالت میں رہے۔ ہر جوان نے بوڑھا ہونا ہے اور ہر قوی نے کمزور ہونا ہے۔ ہر تیز نے سست ہوتا ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ (3) صحابہؓ کے دلوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی عزت وعظمت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آپ کی اونٹنی پر بھی کسی کی سبقت لے جانا پسند نہیں کرتے تھے جبکہ بدوحضرات میں بے ادبی اور سختی پائی جاتی تھی۔ (4) حدیث تواضع اور انکسار پر ابھارتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تواضع‘ انکسار اور حسن خلق کی مثال ہے۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا۔ ا س سے کوئی اونٹ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک اعرابی اپنے جوان اونٹ پر آیا اور اس سے مقابلے میں آگے بڑھ گیا۔ یہ بات مسلمانوں کو بہت ناگوار گزری۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے چہروں کے تأثرات دیکھے جبکہ وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! عضباء تو پیچھے رہ گئی! تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے یہ بات لازم قراردے لی ہے کہ دنیا کی جو چیز بھی بلند مرتبہ ہوگی‘ اللہ تعالیٰ اسے (کسی نہ کسی وقت) نیچا دکھائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عضباء، لغوی لحاظ سے اس کے معنی ”کن کٹی“ ہیں مگر آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی بلکہ اس کا عرفی نام عضباء تھا۔ ممکن ہے کان زیادہ چھوٹے ہوں‘ تشبیہاً عضباء کہہ دیا گیا ہو۔ (2) ”نیچا دکھائے گا“ کیونکہ ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ (الرحمن: ۵۵:۲۶) ”دنیا کی ہرچیز زوال پذیر ہے۔“ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز ہمیشہ عروج کی حالت میں رہے۔ ہر جوان نے بوڑھا ہونا ہے اور ہر قوی نے کمزور ہونا ہے۔ ہر تیز نے سست ہوتا ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ (3) صحابہؓ کے دلوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی عزت وعظمت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آپ کی اونٹنی پر بھی کسی کی سبقت لے جانا پسند نہیں کرتے تھے جبکہ بدوحضرات میں بے ادبی اور سختی پائی جاتی تھی۔ (4) حدیث تواضع اور انکسار پر ابھارتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تواضع‘ انکسار اور حسن خلق کی مثال ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عضباء نامی ایک اونٹنی تھی وہ ہارتی نہ تھی، اتفاقاً ایک اعرابی (دیہاتی) اپنے جوان اونٹ پر آیا اور وہ مقابلے میں عضباء سے بازی لے گیا، یہ بات (ہار) مسلمانوں کو بڑی ناگوار گزری۔ جب آپ نے لوگوں کے چہروں کی ناگواری و رنجیدگی دیکھی تو لوگ خود بول پڑے: اللہ کے رسول ! عضباء شکست کھا گئی (اور ہمیں اس کا رنج ہے)، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کے حق (و اختیار) کی بات ہے کہ جب دنیا میں کوئی چیز بہت بلند ہو جاتی اور بڑھ جاتی ہے تو اللہ اسے پست کر دیتا اور نیچے گرا دیتا ہے۔“ (اس لیے کبیدہ خاطر ہونا ٹھیک نہیں ہے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had a she-camel called Al-'Adba' which could not be beaten. One day a Bedouin came on a riding-camel and beat her (in a race). The Muslims were upset by that, and when he saw the expressions on their faces they said: 'O Messenger of Allah, Al-'Adba' has been beaten.' He said: 'It is a right upon Allah that nothing is raised in this world except He lowers it.