Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3626.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں اس قدر بیمار ہوگیا کہ موت کو جھانکنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ تو کیا میں اپنا دوتہائی مال صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: ایک تہائی؟ فرمایا: ”ایک تہائی‘ ایک تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جائے تو وہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ تو انہیں فقیر بنا کر چھوڑ جائے۔ وہ لوگوں سے (بھیک) مانگتے پھریں۔
تشریح:
(1) یہ واقعہ مکہ مکرمہ کا ہے فتح مکہ کے موقع پر۔ (2) ”بیٹی کے سوا“ یعنی اولاد میں سے‘ ورنہ عصبات تو تھے۔ (3) ”زیادہ ہی ہے“ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ ثلث (تہائی) سے بھی کم میں وصیت کرنی چاہیے۔ دیگر حضرات معنیٰ کرتے ہیں: ”ایک تہائی بہت ہے۔“ گویا ایک تہائی میں وصیت ہوسکتی ہے۔ (4) مریض کی عیادت اور اس کے لیے شفا کی دعا کرنا مشروع ہے اور مریض کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیماری کی شدت کو بیان کرے لیکن اس میں کراہت اور عدم رضا کا پہلو نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3630
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3628
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3656
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں اس قدر بیمار ہوگیا کہ موت کو جھانکنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ تو کیا میں اپنا دوتہائی مال صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: ایک تہائی؟ فرمایا: ”ایک تہائی‘ ایک تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جائے تو وہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ تو انہیں فقیر بنا کر چھوڑ جائے۔ وہ لوگوں سے (بھیک) مانگتے پھریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ واقعہ مکہ مکرمہ کا ہے فتح مکہ کے موقع پر۔ (2) ”بیٹی کے سوا“ یعنی اولاد میں سے‘ ورنہ عصبات تو تھے۔ (3) ”زیادہ ہی ہے“ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ ثلث (تہائی) سے بھی کم میں وصیت کرنی چاہیے۔ دیگر حضرات معنیٰ کرتے ہیں: ”ایک تہائی بہت ہے۔“ گویا ایک تہائی میں وصیت ہوسکتی ہے۔ (4) مریض کی عیادت اور اس کے لیے شفا کی دعا کرنا مشروع ہے اور مریض کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیماری کی شدت کو بیان کرے لیکن اس میں کراہت اور عدم رضا کا پہلو نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا ایسا بیمار کہ مرنے کے قریب آ لگا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: تو ایک تہائی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں ایک تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے“ تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amir bin Sa'd that his father said: "I became ill with a sickness from which I later recovered. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came to visit me, and I said: 'O Messenger of Allah, I have a great deal of wealth and I have no heir except my daughter. Shall I give two-thirds of my wealth in charity?' He said: 'No.' I said: 'Half?' He said: 'No.' I said: 'One-third?' He said: '(Give) one-third, and one-third is a lot. It is better to leave your heirs independent of means, than to leave them poor and holding out their hands to people.