Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3627.
حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: نبی اکرم ﷺ میری بیمار پرسی کو تشریف لائے۔ میں ان دنوں مکہ میں تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: تو پھر تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں تہائی۔ تہای بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر مرے تو بہتر ہے بجائے اس کے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر مرے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3631
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3629
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3657
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: نبی اکرم ﷺ میری بیمار پرسی کو تشریف لائے۔ میں ان دنوں مکہ میں تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: تو پھر تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں تہائی۔ تہای بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر مرے تو بہتر ہے بجائے اس کے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر مرے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے اور میں ان دنوں مکے میں تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی دے د، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں تنگدست چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور لوگوں سے جو ان کے ہاتھ میں ہے مانگتے پھریں.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'd said: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to visit me when I was in Makkah. I said: 'O Messenger of Allah, shall I bequeath all my money?' He said: 'No.' I said: 'One-half?' He said: 'No.' I said: 'One-third?' He said: '(Bequeath) one-third, and one-third is a lot. If you leave your heirs independent of means, that is better than if you leave them poor and holding out their hands to people.