Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3631.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میری بیماری کے دوران میں میری بیمار پرسی کو تشریف لائے اور فرمایا: ”تم نے کوئی وصیت کی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کتنے مال کی؟“ میں نے کہا: اپنا تمام مال فی سبیل اللہ صدقہ کرنے کی۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ میں نے کہا: وہ مال دار ہیں۔ فرمایا: ”وصیت دسویں حصے کی وصیت کرو۔“ آپ کی اور میری تکرار جاری رہی حتیٰ کہ آپ نے فرمایا: ”چلو تیسرے حصے کی وصیت کرلو۔ ویسے تیسرا حصہ بھی زیادہ ہی ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3635
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3633
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3661
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میری بیماری کے دوران میں میری بیمار پرسی کو تشریف لائے اور فرمایا: ”تم نے کوئی وصیت کی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کتنے مال کی؟“ میں نے کہا: اپنا تمام مال فی سبیل اللہ صدقہ کرنے کی۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ میں نے کہا: وہ مال دار ہیں۔ فرمایا: ”وصیت دسویں حصے کی وصیت کرو۔“ آپ کی اور میری تکرار جاری رہی حتیٰ کہ آپ نے فرمایا: ”چلو تیسرے حصے کی وصیت کرلو۔ ویسے تیسرا حصہ بھی زیادہ ہی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے وصیت کر دی؟“ میں نے کہا: جی ہاں کر دی، آپ نے فرمایا: ”کتنی؟“ میں نے کہا: اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا؟“ میں نے کہا: وہ سب مالدار و بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: ”دسویں حصے کی وصیت کرو“، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ۱؎ آپ نے فرمایا: ”اچھا تہائی کی وصیت کر لو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے آدھا کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تہائی؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'd bin Abi Waqqas said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) visited me when I was sick, and said: 'Have you made a will?' I said: 'Yes.' He said: 'How much?' I said: 'For all my wealth to be given in the cause of Allah.' He said: 'What have you left for your children?' I said: 'They are rich (independent of means).' He said: 'Bequeath one-tenth.' And we kept discussing it until he said: 'Bequeath one-third, and one-third is much or large.