Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3633.
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد ؓ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ سعد ؓ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میں اپنے دوتہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے کہا: تو پھر تہائی کی وصیت کردوں؟ فرمایا: ”(تہائی کی وصیت کردو)۔ ویسے تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو انہیں فقیرونادار چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3637
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3635
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3663
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد ؓ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ سعد ؓ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میں اپنے دوتہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے کہا: تو پھر تہائی کی وصیت کردوں؟ فرمایا: ”(تہائی کی وصیت کردو)۔ ویسے تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو انہیں فقیرونادار چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سعد بن ابی وقاص ؓ کی عیادت کے لیے ان کے پاس آئے، سعد ؓ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصے اللہ کی راہ میں دے دینے کا حکم (یعنی اجازت) دے دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: تو پھر ایک تہائی کی وصیت کر دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی ہو سکتا ہے، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے، (آپ نے مزید فرمایا) اگر تم اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر (اس دنیا سے) جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر بنا کر جاؤ کہ وہ (دوسروں کے سامنے) ہاتھ پھیلاتے پھری۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came to visit Sa'd (when he was sick). Sa'd said to him: "O Messenger of Allah, shall I bequeath two-thirds of my wealth?" He said: "No." He said: "Shall I bequeath half?" He said: "No." He said: "Shall I bequeath one-third?" He said: "Yes, one-third, and one-third is much or large. If you leave your heirs independent of means that is better than if you leave them poor, holding out their hands.