Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3635.
حضرت سعد بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ میں بیمار تھا۔ میں نے کہا: میری اولاد صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا سب مال فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی وصیت کردوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کردوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: تو تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”تہائی کی کردو۔ ویسے تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3639
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3637
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3665
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعد بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ میں بیمار تھا۔ میں نے کہا: میری اولاد صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا سب مال فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی وصیت کردوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کردوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: تو تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”تہائی کی کردو۔ ویسے تہائی بھی زیادہ ہی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کر دوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سعد بن مالک ہی سعد بن ابی وقاص ہیں، والد کا نام مالک اور کنیت ابوسعد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Muhammad bin Sa'd, from his father Sa'd bin Malik, that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to him when he was sick and he said: "I do not have any children apart from one daughter. Shall I bequeath all my wealth?" The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "No." He said: "Shall I bequeath half of it?" The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "No." He said: "Shall I bequeath one-third of it?" He said: "One-third, and one-third is much or large.