قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْوَصَايَا (بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

3636 .   أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ قَالَ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّمَا أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ادْعُ أَصْحَابَكَ فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَأَنَا رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً

سنن نسائی:

کتاب: وصیت سے متعلق احکام و مسائل

 

تمہید کتاب  (

باب: وصیت ایک تہائی مال میں ہوسکتی ہے

)
 

مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)

3636.   حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم جنگ احد کے دن شہید ہوگئے۔ چھ بیٹیاں اور اپنے ذمے بہت قرض چھوڑ گئے۔ جب کھجوروں کی کتائی کا وقت آیا تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ جانتے ہیں کہ میرے والد احد کی جنگ کے دن شہید ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ذمے کافی قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں (آپ تشریف لائیں تاکہ شاید) قرض خواہ حضرات آپ کا لحاظ رکھیں (اور رعایت کردیں)۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کے الگ الگ ڈھیر لگادو۔“ میں نے ایسا کرنے کے بعد پھر آپ کو بلایا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ مجھ پر بہت بھڑکے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے طرز عمل کو دیکھا تو آپ (اٹھے اور) سب سے بڑے ڈھیر کے گرد چکر لگانے لگے۔ تین چکر لگانے کے بعد آپ اس پر بیٹھ گئے‘ پھر فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔“ آپ ان سب کو ماپ ماپ کر دیتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا سب قرض اتاردیا۔ میں تو اس بات پر بھی راضی تھا کہ میرے والد محترم کا قرض ادا ہوجائے‘ خواہ کچھ بھی باقی نہ رہے۔ (مگر قرض کی ادائیگی کے باوجود) ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔