Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Bequeathing One-Third)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3636.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم جنگ احد کے دن شہید ہوگئے۔ چھ بیٹیاں اور اپنے ذمے بہت قرض چھوڑ گئے۔ جب کھجوروں کی کتائی کا وقت آیا تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ جانتے ہیں کہ میرے والد احد کی جنگ کے دن شہید ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ذمے کافی قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں (آپ تشریف لائیں تاکہ شاید) قرض خواہ حضرات آپ کا لحاظ رکھیں (اور رعایت کردیں)۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کے الگ الگ ڈھیر لگادو۔“ میں نے ایسا کرنے کے بعد پھر آپ کو بلایا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ مجھ پر بہت بھڑکے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے طرز عمل کو دیکھا تو آپ (اٹھے اور) سب سے بڑے ڈھیر کے گرد چکر لگانے لگے۔ تین چکر لگانے کے بعد آپ اس پر بیٹھ گئے‘ پھر فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔“ آپ ان سب کو ماپ ماپ کر دیتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا سب قرض اتاردیا۔ میں تو اس بات پر بھی راضی تھا کہ میرے والد محترم کا قرض ادا ہوجائے‘ خواہ کچھ بھی باقی نہ رہے۔ (مگر قرض کی ادائیگی کے باوجود) ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔
تشریح:
(1) اس روایت کا مندرجہ بالا باب سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ آئندہ باب سے تعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ بہت جگہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن طویل باب کے آخر میں ایک حدیث باب کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لاتے ہوں کہ نیا باب آرہا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”چھ بیٹیاں“ بعض روایات میں نو کا ذکر ہے۔ ممکن ہے تین شادی شدہ ہوں‘ اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چھ غیر شادی شدہ تھیں جن کی ذمہ داری حضرت جابر کے ذمے تھی۔ واللہ أعلم۔ (3) ”بھڑکے“ دراصل وہ یہودی تھے اور یہودی انتہائی خودغرض، سنگ دل اور بے لحاظ قوم ہیں بلکہ ہر سود خور شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔ (4) ”چکر لگائے“ برکت کے لیے کھجوروں کی مقدار کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے۔ (5) ”کم نہیں ہوئی“ یہ نبی ﷺ کی برکت تھی۔ (6) حاکم کا اپنی رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود چل کرجانا اور ان کے حق میں سفارش کرنا تاکہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاسکے‘ مستحب عمل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3640
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3638
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3666
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم جنگ احد کے دن شہید ہوگئے۔ چھ بیٹیاں اور اپنے ذمے بہت قرض چھوڑ گئے۔ جب کھجوروں کی کتائی کا وقت آیا تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ جانتے ہیں کہ میرے والد احد کی جنگ کے دن شہید ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ذمے کافی قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں (آپ تشریف لائیں تاکہ شاید) قرض خواہ حضرات آپ کا لحاظ رکھیں (اور رعایت کردیں)۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کے الگ الگ ڈھیر لگادو۔“ میں نے ایسا کرنے کے بعد پھر آپ کو بلایا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ مجھ پر بہت بھڑکے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے طرز عمل کو دیکھا تو آپ (اٹھے اور) سب سے بڑے ڈھیر کے گرد چکر لگانے لگے۔ تین چکر لگانے کے بعد آپ اس پر بیٹھ گئے‘ پھر فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔“ آپ ان سب کو ماپ ماپ کر دیتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا سب قرض اتاردیا۔ میں تو اس بات پر بھی راضی تھا کہ میرے والد محترم کا قرض ادا ہوجائے‘ خواہ کچھ بھی باقی نہ رہے۔ (مگر قرض کی ادائیگی کے باوجود) ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کا مندرجہ بالا باب سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ آئندہ باب سے تعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ بہت جگہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن طویل باب کے آخر میں ایک حدیث باب کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لاتے ہوں کہ نیا باب آرہا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”چھ بیٹیاں“ بعض روایات میں نو کا ذکر ہے۔ ممکن ہے تین شادی شدہ ہوں‘ اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چھ غیر شادی شدہ تھیں جن کی ذمہ داری حضرت جابر کے ذمے تھی۔ واللہ أعلم۔ (3) ”بھڑکے“ دراصل وہ یہودی تھے اور یہودی انتہائی خودغرض، سنگ دل اور بے لحاظ قوم ہیں بلکہ ہر سود خور شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔ (4) ”چکر لگائے“ برکت کے لیے کھجوروں کی مقدار کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے۔ (5) ”کم نہیں ہوئی“ یہ نبی ﷺ کی برکت تھی۔ (6) حاکم کا اپنی رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود چل کرجانا اور ان کے حق میں سفارش کرنا تاکہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاسکے‘ مستحب عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ ان کے والد ۱؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہو گئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: ”جاؤ اور ہر ڈھیر الگ الگ کر دو“ ، تو میں نے (ایسا ہی) کیا، پھر آپ ﷺ کو بلایا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو اس گھڑی گویا وہ لوگ مجھ پر اور بھی زیادہ غصہ ہو گئے ۲؎ جب آپ نے ان لوگوں کی حرکتیں جو وہ کر رہے تھے دیکھیں تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے اردگرد تین چکر لگائے پھر اسی ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ“ جب وہ لوگ آ گئے تو آپ انہیں برابر (ان کے مطالبے کے بقدر) ناپ ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کرا دی اور میں اس پر راضی و خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کر دی اور ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی الله عنہ۔ ۲؎ : یعنی اپنا اپنا مطالبہ لے کر شور برپا کرنے لگے کہ ہمیں دو، ہمارا حساب پہلے چکتا کرو وغیرہ وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah narrated that his father was martyred on the Day of Uhud, and he left behind six daughters, and some outstanding debts. When the time to pick the dates came, I went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) and said: "You know that my father was martyred on the Day of Uhud and he left behind a great deal of debt. I would like the creditors to see you." He said: "Go and pile up the dates in separate heaps." I did that, then I called him. When they saw him, it was as if they started to put pressure on me at that time. When he saw what they were doing, he went around the biggest heap three times, then he sat on it then said: "Call your companions (the creditors)." Then he kept on weighing them out for them, until Allah cleared all my father's debts. I am pleased that Allah cleared my father's debts without even a single date being missed.